مقبول خبریں
وہ دن کہاں گئے؟وہ زمانہ کدھرگیا؟بچپن کی یادیں!
حصہ اول
ہم 21 ویں صدی میں قدم رکھ چکیں ہیں اور بہت بے ہنگم سی زندگی گزار رہے ہیں۔سب ہاتھوں میں ہے مگر کچھ ہاتھوں میں نہیں۔ گزشتہ صدی میں ہم نے بڑی سکون کی زندگی گزاری تھی ایک تو بچپن کے دن تھے اور خلوص کے رشتے تھے ، ٹیکنالوجی کا سحر طاری نہیں ہوا تھا، بہرحال ہمارا تعلق 90sکے سنہرے دور سےہے اس لئے ہماری یادیں بھی کمال ہے۔
اب زمانہ بہت بدل گیا ہے، لوگ بدل گئے ہیں ، وہ ملنا ملانا ختم ہوگیا ہے ، وہ خاندانون کا ملنا اوربہت سی چیزوں پر گہن لگ گیا ہے ۔ بس پرانی یادیں ہیں اور اس ہی میں بس اب جینا ہے بلکہ زندی گزارنی ہے ۔کیونکہ ہمارا تعلق مڈل کلاس طبقےسے ہے تو مڈل کلاس کا Nostalgia بھی بڑا مختلف ہوتا ہے ۔ چلئے خوبصورت ماضی کی جانب پلٹتے ہیں اس تحریر کے توسط سے۔
یہ پڑھیں : ٹی وی ، آتش دان اور چائے
ہمارا بچپن تو گزر گیا مگر اتنا شاندار تھا کہ یادیں ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں ہر دن کسی نہ کسی شکل میں سامنے آجاتی ہے۔ ان یادوں میں بہت کچھ ہے ، آپ لوگ بھی یاد کریں ذرا۔آپ کو یاد ہوگا کہ ہم گورے ہونے کے لئے تبت سنو لگاتے تھے، گرمی بھگانے کے لئے پریکلی ہیٹ شرٹ کے اندر بھرلیتے ہیں ، گھر کی عورتیں جپسی کریم کا استعمال کرتی تھیں۔
شادی کا زمانہ آتا تو ایلو ویرا سے مساج ہوتا اور ملتانی مٹی کے کئی دور چلتے تھے۔پھر ایک طرح کے کپڑے بنانا بلخصوص مہندی میں ، اور مرد ایک طرح کا دوپٹہ ڈالتے تھے۔شادی کی تقریب میں مووی اور فوٹو گرافی کا دور بھی کمال کا ہوتاتھا۔ہال کے کونے کونے سے پوری فیملی کو جوڑ کر اسٹیج تک پہنچانے کی ذمہ داری خاندان کی سب سے مستعد خاتون کو ملتی تھی ۔
تقریب کا میزبان مووی والے کو کہتا تھاکہ ہر ٹیبل پر جا کر مووی بنانا تاکہ بعد میں کوئی یہ شکایت نہ کریں کہ ہم نے کھانا نہیں کھایا تھا اور پھر وہ مووی والا ہر ٹیبل پر باری باری جاکر کھانا کھاتے ہوئے لوگوں کی ویڈیو بناتا تھا اور ہم منہ جھکاکر اس کے گزرنے کاانتظار کرتے تھے۔
پھرشادی کا لفافے کھولتے وقت ایک ڈائری ہوتی تھی جس میں لفافے کی رقم اور دینے والے کا نام و علاقہ تحریر کیا جاتا تھا، تاکہ صاحب لفافے کی مستقبل میں ہونے والی تقریب میں اتنی ہی رقم واپس پلٹائی جائیں۔
ارے ہاں وہ شیشے والی پلیٹیں بھی شادیوں کے کھانے کا لازمی جز ہوتی تھی اور شادی کےتو چند ایونٹس ہوتے تھے پر خاندان کے قریبی لوگ ایک ہفتے پہلے آکر رُک جاتے تھے اور خوب ہلہ گلہ کیا جاتا تھا۔ اب بھی ان میں سے کچھ سلسلے جاری ہیں مگر بڑا گہرا فرق قائم ہوچکا ہے کیونکہ پہلے خلوص و محبت کے ساتھ رشتے نبھائے جاتے تھے اور اب وہ خلوص تقریباًختم ہوگیا ہے بلکہ اگر کچھ ہے بھی تو مجبوریاں ہوتیں ہیں۔
وہ اورنج والی ویژلین یاد ہے ہم تو ہونٹوں پر لگاتے تھے مگر ہماری اماں اکثر منہ پر بھی لگادیتی تھی اور سرپر تیل کی مالش سے ہم چمک پٹی بن جاتے تھے ۔ اکثر برش کے بجائے ڈینٹونک کا استعمال کرنا اور کبھی کبھی وہ منجن جو خاندان کی کسی بوڑھی خاتون کا ہوتا تھا اس کو بھی استعمال کرلیتے تھے۔
یہ پڑھیں : سردی اور کھانے
اکثر بہنوں کی فیئرنس کریم لگا کرملتے رہتے اور خود ہم کلام ہوتے دیکھو بھئ ہم گورے ہوگئے ۔ وہ کرکٹ میچ والے دن سب کا ساتھ بیٹھ کر میچ دیکھنا اور شور شرابہ کرنا اور پھرساتھ کھانا کھانا۔پی ٹی وی پرعینک والے جن دیکھنے کے لئے کزنز کا جمع ہونا اور پھر شادی کی ویڈیوکی ڈی وی ڈی جب آتی تھی تو خصوصی طور پر گھر میں سب جمع ہوتے اور مل کر اس کو دیکھتے اور تبصرے کرتے تھے۔
وہ الگ بات ہے خواتین اپنے آپ کو دیکھ کر کہتی ہائے میں اچھی نہیں لگ رہی یا پھر تصویروں والے البم کی میں موجود اپنی تصویرخراب ہو تو مدعا فوٹوگرافر پر ڈال دیتی تھی،مگر یہ نہیں سمجھتی تھیں کہ جیسی وہ ہیں ویسی ہی تو آئیں گی۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔