مقبول خبریں
میرا قصور کیا ہے ؟ کراچی کا سوال
کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر بھی کراچی ہے۔ یہ پاکستان کےجسم میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ یہ پورے ملک کو اپنے اندر سمایا ہوا ہے، سمیٹاہوا ہے ۔
ہر رنگ و نسل کے پاکستانی اور مختلف مذاہب کےدنیا بھر کے افراد اس شہر سے کماتے ہیں اور اپنا گھربارچلاتے ہیں اور اپنی زندگی میں بہار لاتے ہیں۔ کراچی تقریباً 70 % ریونیو کماتا ہے اور ملک کو چلاتا ہے۔کراچی کی حیثیت بلکل بڑے بھائی جیسی ہے جو سب کو پالتا ہے مگر اس کی خوشیوں کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا ہے۔
کراچی کا حال کیا لکھوں ، مختصریہ کہ کراچی تباہ حالی سے بھی آگےہے۔ایک جملے میں اگر یوں کہوں کہ کراچی کو کینسر ہوگیا ہے مگر علاج بخار اور کھانسی والا جاری ہے ۔کراچی کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا مگر اب یہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے ،اگر تجربہ کرنا ہے توذرا رات کو سڑکوں پر نکل جائیں تو تقریباً 50%فیصد اسٹریٹ لائٹس بند ہوگی۔
فضول میں پول کھڑے کئے ہوئے ہے اگرلائٹ جلانی نہیں ہےتو کم سے کم پول کا لوہا کلو کے حساب سے بیچ ہی دیں ۔ اسی بہانے کچھ پیسےآجانے ہیں۔
اس بارے میں جانئے : شہری اخلاقیات سے محروم پاکستانی
سڑکوں کا بھی برُا حال ہے روڈوں پر جا بجا جھریاں آچکی ہے بلکے یوں سمجھئےکہ عجیب چہرہ ہوگیا ہے ۔ایک جگہ سے چہرہ پچکا ہوا ہے تو کسی جگہ گڑھے پڑگئے ہیں تو کسی جگہ گال لٹک گئے ہیں یہ کسی بوڑھے شخص کی کہانی نہیں ہے بلکے کراچی کی سڑکوں کا نقشہ ہے ۔
یہاں کی روڈیں اتنی عجیب ہے کہ بیچ سڑک پرگڑھا مل جاتا ہے جہاں بڑے ڈنڈے لگا کر خطرہ کی نشانی سے آگاہ کیا جاتا ہے اسی طرح فاسٹ لین پر بڑے بڑے گٹر کے ڈھکن لگے ہوتے ہیں اور پھرنہ جانے کون ماہر روڈیات ہے جو میں روڈ پر بڑے بڑے اسپیڈبریکر بناتا ہےنہ جانے کتنی گاڑیاں اور بائیک روزانہ کی بنیاد پر ٹیک آف انھی اسپیڈ بریکر سے کرتے ہیں ۔
عجب انداز ہے اور تو اور ایک تو سڑکوں پر روز کے ٹریفک جام کی خواریاں روزانہ کا معاملہ ہے مگر عرصے بعد کوئی روڈ کا کام ہوتو عین اس وقت کیا جاتا ہے جب آفس کا ٹائم ہو یعنی ٹریفک جام کی مزید خواریاں، اور اگر ان سے سب سے بچ جائے تو ابلتے گٹر سڑکوں پر اکڑتے نظر آتے ہیں۔ یہ تقریباً روزانہ کی خواریاں ہیں اور دن میں دو بار ہے اور ہر مڈل اور لوئر کلاس کراچی والا یہ معملات بھگتا ہی بھگتاہے۔
اس بارے میں پڑھئے : کراچی کی ک سے کچی
سڑک ہوگئی، بجلی ہوگئی، اب ٹرانسپورٹ کا حال و چال جانئے بلکے جانتے تو ہونگےبلکے نظارہ بھی کرتے ہونگے۔ ایک تو زمانہ قدیم کی بسیں، اتنی پرانی کے ہارن کے بجائے جس کے تمام پرزے شور کرتے ہیں، اور تو اور 30 سیٹوں والی بس میں 70 ،80 بندہ کو گھسالیتے ہیں،اور تو پھر چھتوں پرالگ ہی رونق رہتی ہے۔
رہی سہی کسر چنگچی رکشہ نے پوری کردی ۔یعنی کے جب گرین بس اور اورنج ٹرین کی ضرورت تھی تو کراچی میں چنگچی دوڑتی ہے۔ پھر ہماری قوم کا سوک سینس بھی اس قدر پستی پر ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کے ذہنی مسائل کا سامنا الگ ہے۔افسوس یہ ہے کہ دوسرے شہروںمیں گرین بس اور اورنج ٹرین چل گئی ہے مگر کراچی میںچنگچی رکشہ ہی چل پایا ۔کیا خوب بے رخی ہے کراچی سے۔
پانی کا مسئلہ بھی کراچی میں جابجا ہے، ہر علاقے میں ہی یہ مسئلہ موجود ہے۔ لائن کے ذریعے پانی پہنچیں یا نہ پہنچیں البتہ ٹینکر کے ذریعےپانی ضرور لبیک کہے گا وہ بھی اگر پیسے پور ے دیں تو۔ ویسے عجب قلت ہے پانی کی جس میں ٹینکر میں تو پانی مہیا ہے مگر ٹینک میں نہیں۔ گیس کا مسئلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ لیکن کچھ چیزیں ابھی بھی کراچی میں وافر مقدار میں ہے جیسے ڈکیت، کچرا،وعدہ، دلاسے، امید اور آسرے۔
کاش کے کراچی کے شہریوں کو بنیادی چیزیں میسر آجائیں ؛کاش!