ہفتہ، 27-جولائی،2024
( 21 محرم 1446 )
ہفتہ، 27-جولائی،2024

EN

اسرائیلی فوج تمام محاذوں پر تھک چکی ہے شمالی محاذ پر نقصانات ظاہر نہیں کررہی

14 مارچ, 2024 16:15

لبنان کی سیاسی اور مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کے قائد سید حسن نصراللْہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے طوفان الاقصیٰ کے خلاف جنگ چھیڑ کر بڑی غلطی کی ہے، اسکی فوج تمام محاذوں پر تھک چکی ہے اور وہ شمالی محاذ پر اسرائیلی فوج اور فوجی ساز و سامان کو پہچنے والے نقصان کو ظاہر نہیں کررہی ہے جو اسرائیل کی طرف سے بتائے گئے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔

اسرائیلی حکومت بے تسلیم کیا ہے کہ اُس کے 590 فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں افسران بھی شامل ہیں، زمینی لڑائی میں 248 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیلی فوج کئی محاذوں کو چھوڑ چکی ہے، حزب اللہ کے قائد نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں جنکا اسرائیل اعتراف کرتا ہے، انہوں نے مزید کہا ہم اپنے شہداء کا اعلان براہ راست نشریات میں کرتے ہیں لیکن غاصب دشمن اپنے مرنے والوں کو چھپاتا ہے کیونکہ اگر جنگی حقائق نشر کئے جائیں تو اسرائیلی فوج کا مورال تباہ ہوجائے گا  جو پہلے ہی محاذ جنگ پر جانے سے خوفزدہ ہیں اُنھوں نے غزہ میں اسرائیلی کی جدید ترین ہتھیاروں کے سامنے فلسطینیوں کی مزاحمت معجزہ ہے، یہ قرآن مجید پر عمل کرنے کے نتیجے میں معجزہ رونما ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ قرآنی تقاضوں کے مطابق  خطے میں مزاحمتی محاذ جو لبنان، عراق اور یمن میں سرگرم ہے غزہ میں اپنے فلسطینی بھائیوں اور مزاحمت کو سپورٹ کرکے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔

تل ابیب کی طرف سے غزہ کے جنوبی شہر رفح پر حملہ کرنے کے اعلان فلسطینی نسل کشی کی اسرائیلی خواہش ہے، اسرائیل کی ظالم حکومت بھوک اور فاقوں سے بچ جانے والے فلسطینیوں کو بمباری اور گولیوں کا نشانہ بنانا چاہتی ہے جبکہ اس ساحلی علاقے میں شمالی اور جنوبی غزہ کے لوگوں نے اس یقین دہانی پر اپنے گھربار چھوڑے کر خمیوں میں پناہ لی تھی کہ یہاں جنگ مسلط نہیں کی جائے گی اور یہ محفوظ زون ہوگا، رفح کے ساحلی علاقوں میں بے سر و سامانی کے عالم میں فلسطینی پہنچے تھے، عالمی برادری نے یقین دہانی کرائی تھی کہ رفح کے پناہ گزینیوں کی دیکھ بھال کی جائے گی مگر رفح قحط سے دوچار ہے اور اب 2.4 ملین آبادی کی پر اسرائیل حملے ہوئے تو یہ نسل کشی کی بدترین شکل ہوگی، جنگ چھٹے مہینے میں داخل ہوچکی ہے اسرائیلی وزیراعظم کا یہ کہنا کہ اگر اسرائیل رفح پر حملہ آور نہیں ہوا تو اسرائیل یہ جنگ ہار جائے گا، اسرائیلی فوج کو شمالی اور جنوبی غزہ میں حماس نہیں ملی تو رفح میں بھی نہیں ملے گی، اس جنگ نے بتادیا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس ادارے ناکام ہوچکے ہیں اُن کی ٹیکنالوجی حماس کے مجاہدین کے سامنے بے بسی کی تصویر ہے، غزہ میں زیر زمین پناہ گایوں کو اسرائیل تلاش نہیں کرسکا ، حماس کے مجاہدین جب چاہتے ہیں اِن زیرزمین پناہ گاہوں سے نکل کر اسرائیلی فوج کو نشانہ بنالتے ہیں، حزب اللہ کے قائد سیدحسن نصر اللْہ کا کہنا درست ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف حماس کی مزاحمت قرآن مجید پر عمل کا نتیجہ ہے جس نے معجزہ رونما کردیا ہے، دنیا ورطہ حیرت میں مبتلا ہے، اسرائیل جیسی طاقت جس کے پیچھے امریکہ اور مغربی ممالک کھڑے ہیں کا مقابلہ ایک جھوٹا سا گروہ کررہا ہےجو باقاعدہ فوج بھی نہیں ہے، مسلم ملکوں کی افواج پر اربوں ڈالر کا بجٹ خرچ ہورہا ہے، جدید اور ایٹمی ہتھیار رکھنے والی فوج بھی مسلم دنیا کا حصّہ ہے مگر وہ اپنے برادران ایمانی کی حمایت میں اسرائیل سے لڑنے کیلئے تیار نہیں جبکہ اس سلسلے میں قرآن مجید کا حکم واضح ہے، قرآن کا حافظ بننے پر فخر ہونا چاہیئے مگر قرآن پر عمل کرکے مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والوں کے خلاف جہاد کرنا قابل اعزاز عمل ہے اور اس سے ہی خدا اور رسولؐ کی خوشنودی حاصل ہوگی، حماس اور حزب اللہ مختصر سا گروہ ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق ظالم طاقتوں سے بنرد آزما ہے اور جس کے مقتدر میں فتح لکھی ہوئی ہے۔

سال 2006ء میں حزب اللہ لبنان نے 34 روزہ جنگ میں اسرائیل کو دھول چٹا دی تھی اور 1982ء سے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں کو آزاد کرایا تھا، شمالی محاذ پر اسرائیل کو حزب اللہ کی مزاحمت کا زبردست سامنا ہے مگر اسرائیل لبنان پر حملے کی جرات نہیں کررہا ہے کیونکہ اسرائیلی فوج جنگ لڑنا نہیں چاہتی ہے، اسرائیلی شہری جنگ لڑنے کیلئے محاذ جنگ پر جانے سے بہتر اپنے آبائی ملکوں میں جانے کو بہتر آپشن سمجھ رہے ہیں، اسرائیلی فوج کے پاس اہلکاروں کی کمی واقع ہوگئی ہے اور وہ 14,500 افسران اور سپاہیوں کو بھرتی کرنا چاہتی ہے حتیٰ کہ حریدی فرقے کے لوگوں (انتہائی قدامت پسند یہودی) کو بھی بھرتی کرنا چاہتی ہے، 3 مارچ کو اسرائیل میں لاکھوں قدامت پسند یہودیوں نے یروشلم میں اجتماعی عبادت کی ایک احتجاجی تقریب منعقد کی ہے جس کا مقصد حکومت کی جانب سے نوجوان یشوا طالب علموں پر فوجی سروس کو لازمی قرار دینے کے اسرائیلی حکومت کے منصوبے کی مخالفت ہے، اسرائیلی پارلیمنٹ میں نئے قانون پر بحث ہورہی ہے تاہم اس کے آئندہ چند ہفتوں میں پاس ہونے کی توقع ہے اور اس کے تحت قدامت پسند یہودی درسگاہوں میں زیرِ تعلیم طلبہ کو فوجی سروس سے دی گئی چھوٹ منسوخ کر دی جائے گی اور جو لوگ اس سروس سے انکار کریں گے انہیں قید کی سزا ہو سکتی ہے، قدامت پسند یہودیوں کا کہنا ہے کہ فوجی سروس انہیں یہودی مذہبی کتابوں کی تعلیم کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے میں رکاوٹ بنے گی اور اس تعلیم کو یہودی طرزِ زندگی کا اہم جز مانا جاتا ہے، اب قدامت پسند 40 لاکھ یہودیوں کے روحانی پیشواء نے بھی اس قانون کے منظور ہونے پر اسرائیل چھوڑنے کا اعلان کردیا ہے، اسرائیل میں رونما ہونے والے یہ وقعات اس بات کی غمازی کررہے ہیں کہ  اسرائیل زیادہ دیر جنگ لڑنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا اور تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے،عرب ملکوں نے صرف چھ دن میں اپنی ارضی سلامتی داؤ پر لگا کر جنگ بند کردی تھی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top