ہفتہ، 27-جولائی،2024
( 21 محرم 1446 )
ہفتہ، 27-جولائی،2024

EN

پاکستان کو23 ارب ڈالر کے قرضوں کی ضرورت، ڈیفالٹ کا خطرہ اب بھی موجود

10 مئی, 2024 14:00

پاکستان کو اگلے مالی سال کے دوران 23 ارب ڈالر کے قرضوں کی ضرورت پڑے گی، وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق وزارت کو توقع ہے کہ دوست ممالک سے 12 ارب ڈالر کا قرضہ لیا جائے گا، جو موجودہ حکومت کی جانب سے زیادہ سے زیادہ لگائے گئے اندازے ہیں۔

البتہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بعض معاشی منصوبوں اور پاکستان کے اہم سرکاری اداروں کی نجکاری اور بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر نکالنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے تاہم اِن کی سرمایہ کاری مشروط ہے اور فی الحال صرف یہ امکان ہے کہ پاکستان کی اِن دونوں ملکوں سے مثالی دوستی کی بناء پر یہ دونوں ملک سرمایہ کے  منافع بخش منصوبوں کیلئے کچھ رقم پیشگی ادائیگی کی صورت میں کرسکتے ہیں، پاکستانی حکومت کے معاشی منتظیمین نے  سنہ 2024-2025 میں سعودی عرب سے 5 ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات سے 3 ارب ڈالر اور چین سے 4 ارب ڈالر کے رول اوور مانگ رہے ہیں، ذرائع نے بتایا کہ چین کے ساتھ نئے مالیاتی انتظامات کے امکانات ہیں جنہیں نئے وفاقی بجٹ میں شامل کیا جائے گا،دریں اثنا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرضہ پروگرام سے اگلے مالی سال میں 1 ارب ڈالر سے زائد اضافی فنڈز ملنے کی توقع ہے، ذرائع نے مزید کہا کہ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) سے نئی بیرونی فنانسنگ کو بھی بجٹ کے تخمینوں میں شامل کیا گیا ہے، وزارت خزانہ کے ذرائع نے مزید کہا کہ قرض کے نئے پروگراموں پر کام جاری ہے اور وفاقی حکومت اس عمل کو تیز کرنے کیلئے مختلف قرض دینے والے شراکت داروں سے رابطے بڑھا رہی ہے۔

واضح رہے عالمی ادارے ایک سے زائد مرتبہ حکومت پاکستان کو باور کراچکے ہیں کہ حکومت کو اپنی آمدنی بڑھانے کیلئے اقدامات کرنے ہونگے سیاسی انتشار اور سیاسی قیدیوں کے مسائل 2024ء کی معیشت کو متاثر کررہے ہیں، وفاقی سرکاری اداروں کے غیر معمولی مالیاتی اخراجات میں کمی اور نجکاری کے ذریعے وفاقی حکومت ڈیفالٹ ہونے سے ملک کو بچا سکتی ہے، پاکستان کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے واضح پیغام دیا گیا ہے کہ وہ حکومتی اخراجات کیلئے کسی قسم کی مالی معاونت نہیں کریں گے دوست ملکوں کی طرف سے کیش امداد دینے سے انکار اور بوجھ بنے سرکاری اداروں کی نجکاری ہی مالیاتی مسائل کو فوری طور پر حل کرسکتی ہے جبکہ گورننس کو بہتر بنانے کیلئے درکار اہم اصلاحات میں ابھی تک موجودہ حکومت ناکام رہی ہے جبکہ پاکستان کی حکومت مشینری ذاتی قیاس کی بنا پر معیشت کی ترقی کو شمار کررہی ہے، مالی سال 23 میں سکڑاؤ کے بعد مضبوط زرعی پیداوار کی وجہ سے مالی سال 24 کی پہلی ششماہی میں معاشی سرگرمیاں مضبوط ہوسکتیں تھیں مگر گندم بحران نے ایک مرتبہ پھر معاشی ترقی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے، عالمی مالیاتی اداروں کا خیال تھا کہ پاکستان کی رزعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ اس کی معاشی ترقی کو ایک اشاریہ آٹھ سے دو  اشاریہ تین تک پہنچا دے گا مگر حکومت کی بدانتظامی زرعی سکٹر کی ترقی سے جو خوشحالی پیدا ہوسکتی تھی اُسے ماند کردیا ہے، پاکستان کی معاشی ترقی میں بہتری کے امکان کے باوجود پاکستان میں غربت کو کم کرنے کیلئے ناکافی ہے، 40 فیصد پاکستانی اب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جسکی وجہ سے پیدا ہونے والی بے چینی امن و امان اور علحیدگی پسندی کو تقویت پہنچائیں گی قرضوں کے بوجھ اور محدود زرمبادلہ کے ذخائر کے درمیان معاشی خطرات بہت زیادہ ہیں۔

یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے اور بین الاقوامی بینکس پاکستان کو چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب  امارات سے متوقع مالی امداد اور ٹیکس نیٹ بڑھانے پر زیادہ زور ہے جبکہ حکومتی اخراجات جس میں وزارتوں اور ڈویژن کی بہتات اور ملک بھر میں گھوسٹ ملازمین موجودگی پر سوال نہیں اٹھاتے اور اسی طرح ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود نفری کے اعتبار سے دس لاکھ سے بڑی فوج اور اعلیٰ کماندرز کی مراعات کے متعلق مکمل خاموش رہا جاتا ہے اور اس بابت بند کمروں میں بھی عالمی ادارے پاکستان کے معاشی منتظمین کو تجویز نہیں دیتے اور نہ اس سلسلے میں مالیاتی ادارے دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ اصلاحات پاکستان کی بقا اور سلامتی کیلئے ضروری ہیں، پاکستان کی معیشت پر اسٹیل مل، پی آئی اے اور دیگر ادارے بوجھ نہیں ہیں، مفت پیٹرول، فوجی افسران، سول بیوروکریسی، وفاقی اور صوبائی وزراء، پارلیمانی  کمیٹیوں کے سربراہاں کے پروٹوکالز اور کے محافظین کی حفاظت کے سلسلے کو بند کیا جائے اور یہ رقم عوام کی فلاح اور بہبود کیلئے خرچ کی جائے تو غربت اور بے روزگاری میں نمایاں کمی آئے گی۔

نوٹ: جی ٹی وی نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top