جمعرات، 19-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

تاحیات نااہلی کیس؛ سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

05 جنوری, 2024 12:40

اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہوگئے، پورے ملک کو تباہ کرنے والا5 سال بعد اہل ہو جاتا ہے، عدالت نے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔

سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ آج نہیں لیکن جلد مختصر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔

 

سماعت کا احوال:

سپریم کورٹ میں تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں7 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، لارجر بینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحیی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔

سماعت کا آغاز ہوا تو جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نےدلائل کاآغازکردیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات سے متعلق انفرادی کیس ہم نہیں سنیں گے، ہم آئینی تشریح سے متعلق کیس سنیں گے، انفرادی کیس اگلے ہفتے کسی اور بینچ میں لگادیں گے، اس وقت قانونی اورآئینی معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بنیادی معاملہ اسی عدالت کاسمیع اللہ بلوچ کیس کاہے، سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نےبھی سمیع اللہ بلوچ کیس میں سوال اٹھایا ہے۔

جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ آپ کےمطابق نااہلی کا ڈکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے کہا کہ جی ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، سول کورٹ فیصلے پر کسی کا بنیادی آئینی حق تاعمر ختم نہیں ہوتا، کامن لاء سے ایسی کوئی مثال مجھے نہیں ملی، کسی کا یوٹیلیٹی بل بقایا ہو جب ادا ہو جائے تو وہ اہل ہو جاتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیاسول کورٹ نااہلی کا ڈکلیریشن دےسکتاہے۔ وکیل مخدوم علی نے کہا کہ سول کورٹ ایسا ڈکلیریشن نہیں دےسکتا، کون ساسول کورٹ ہےجوواجبات باقی ہونے پرکہہ دے یہ صادق وامین نہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی سےڈیکلیریشن پرنااہلی کی مدت متعین کی جاسکتی ہے؟۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے کہا کہ آئین میں کورٹ آف لاءکی بات ہے، جس میں سول اورکرمنل دونوں عدالتیں آتی ہیں، کل جسٹس مسرت ہلالی نےپوچھاآرٹیکل62اور63 الگ الگ رکھنےکی وجہ کیاتھی، اہلیت اور نااہلی کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔

عدالت نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل62 کا اطلاق الیکشن سے پہلے ہوتا ہے یا بعد میں بھی ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز تک محدود کیوں کر رہے ہیں، ہم آئینی تاریخ، بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں، مخصوص نئی جزئیات داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لئے گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم پاکستان کی تاریخ کوبھول نہیں سکتے، پورے ملک کو تباہ کرنے والا 5 سال بعد اہل ہو جاتا ہے، صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو تاحیات نا اہل، صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے، خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں۔

وکیل مخدوم علی نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ایک دوسرے سے الگ نہیں پڑھا جا سکتا، ان دونوں آرٹیکلز کو بنیادی حقوق والے آرٹیکل17 سے الگ بھی نہیں پڑھا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کہا گیا سادہ قانون سازی سے آئین میں دی چیز نہیں بدلی جاسکتی، ہم مگر آئینی ترمیم کو بھی کالعدم کر دیتے ہیں، کیا پاکستانی ارکان پارلیمنٹ دنیا میں سب سے بہترین ہیں۔

وکیل مخدوم نے جواب دیا کہ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے سوال اٹھاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہم نے اپنےارکان کی اہلیت کا جو پیمانہ رکھا ہے، کیا دنیا میں کہیں اور ہے۔ جس پر وکیل نے کہا کہ میرےعلم میں نہیں کہ دنیا میں کہیں ایسا ہو۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کہا گیاعام قانون سازی آئینی ترمیم کا راستہ کھول سکتی ہے، اس کا کیا مطلب ہے ہم اپنی مرضی سے جو فیصلہ چاہیں کر دیں، کیا ہمارے پارلیمان میں بیٹھے لوگ بہت زیادہ سمجھدار ہیں، پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ نااہلی سے متعلق کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا، مگر کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کوخیال نہیں ہے، آئین پر ایوب خان نے تجاوز کیا اور پھر یہ سلسلہ آگے چلتا گیا۔

جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ میں آئین کو 18ویں ترمیم کے بعد سے دیکھ رہا ہوں، ہمیں تشریح کیلئے آئین میں دیئے ٹولز پر ہی انحصار کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین نے نہیں کہا تھا نا اہلی تاحیات ہے یہ ہم نے کہا، کوئی قتل کرکے لواحقین سے صلح کرلےتو معاملہ ختم ہو جاتا ہے، کاغذات نامزدگی میں کچھ غلط ہو جائے تو تاحیات نااہل کیسے ہو جائے گا۔

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کاغذات نامزدگی میں پوچھا جاتا ہے آپ کے پاس کتنا سونا ہے،اگر سونا رکھنے پر درست نہ بتایا جائے تو تاحیات نااہل کر دیتے ہیں، تاحیات نااہلی کی کوئی تو منطق ہونی چاہئے۔

جسٹس جمال خان نے وکیل سے استفسار کیا کہ فرا ڈپر ایک شخص کو سزا ہو جائے تو کیا سزا کے بعد انتخابات لڑ سکتا ہے۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ دھوکا دہی میں سزا پوری ہونے کے بعد انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عوام کو فیصلہ کرنا چاہیے کون صادق اور امین ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ کیا ایک شخص کی غلطی سے پورا حلقہ متاثر کیا جا سکتا ہے، مخصوص کیس کے باعث حلقے کے لوگ اپنےنمائندے سےمحروم کیوں ہوں، کیسے ممکن ہے ایک شخص پر مقدمہ بنا ہو اور پورا حلقہ اس کے نتائج بھگتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس پر لارجر بینچ بنایا گیا تھا تاکہ سوالات کا جواب مل سکے، معاملہ الجھتا جا رہا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل مخدوم علی سے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ ڈکلیریشن جاری کرسکتی ہے۔ جس پر وکیل مخدوم نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں آرٹیکل 199کے تحت ہائیکورٹ ڈکلیریشن جاری کرسکتی ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ قانون سازوں نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکےآرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت پانچ سال کردی، کیا بہترنہ ہوتا کہ قانون میں واضح لکھا جاتا کہ 62 ون ایف کے ذریعے 5 سال نااہلی کی سزا ہوگی؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت قانون آپکے سامنے چیلنج نہیں ہوا آپ اپیل سن رہے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مدت پانچ سال طے کرنے کا معاملہ عدالت آیا، کیا عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ سول کورٹ سے ڈگری ہوئی توسزا پانچ سال ہو۔

وکیل نے کہا کہ سیکشن 232 تین کو اگلی پارلیمنٹ ختم کرسکتی ہے، عدالت نے طےکرنا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس درست تھا یا نہیں، اگرسمیع اللہ بلوچ کیس کالعدم قراردیا گیا توالیکشن قانون کا اطلاق ہوگا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم سیکشن 232 کو کیسے کالعدم قرار دیں وہ تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔

جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ تاحیات نا اہلی کا اصول عدالتی فیصلے سے طے ہوا۔

جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں فیصلے میں تاحیات کا ذکر نہیں ہے۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا جب تک ڈکلریشن رہے گا نااہلی رہے گی۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ اگرعدالت ڈکلیریشن کی ہی تشریح کردے تو کیا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ ماضی کا حصہ بنے ہوئے ڈکلیریشن کاعدالت دوبارہ کیسے جائزہ لے سکتی ہے، جو مقدمات قانونی چارہ جوئی کے بعد حتمی ہوچکے انہیں دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ ڈکلیریشن حتمی ہوچکا ہے تو الیکشن پر اس کے اثرات کیا ہوں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ساتھی جج سے سوال کیا کہ فیصل واوڈا کیس میں آپکا کیا خیال ہے۔ جس پر جسٹس منصور نے جواب دیا کہ اس کیس میں ڈکلیریشن نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت طے کر دی تو یہ سوال تو اکیڈمک سوال ہوا کہ نااہلی کی مدت کیا ہوگی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو کالعدم قرار دیں تو سزا کتنی ہوگی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کہہ چکی ہے نااہلی 5 سال ہوگی، کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں اٹارنی جنرل کونوٹس کیا گیا تھا؟ریکارڈ منگوا لیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سیکشن 232 نے عدالتی معاون کے مطابق سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو بے اثرکردیا۔

وکیل مخدوم علی نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دیکھے، سیکشن 232 چیلنج ہی نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ میں توبہ کے نظریہ کی بات ہوئی، عدالت کو سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کے فیصلے کو ختم کرنا ہوگا۔

چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لے؟۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس ہونے سے پہلے مدت کم نہیں ہوسکتی۔

یہ پڑھیں : نااہلی مدت کیس؛اسلام میں توبہ کا راستہ موجود ہے: چیف جسٹس

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top