جمعہ، 17-مئی،2024
( 09 ذوالقعدہ 1445 )
جمعہ، 17-مئی،2024

EN

پاکستان میں اداروں کا سیاسی کردار سیاستدانوں کی اقتدار پرستی کا مَرہون مِنَّت ہے

29 اپریل, 2024 18:15

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اندرونی حلقے واضح طور پر کہتے ہیں کہ فارم 47 کی بنیاد پر مسند اقتدار پر بیٹھائے گئی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے پاس وہ اختیار ہی نہیں ہے جو ایک نتیجہ خیز مذاکرات شروع کرنے کیلئے فریق مخالف کے پاس ہونا چاہیئے۔

تحریک انصاف کے اندر مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرنے والے طاقتور عناصر سمجھتے ہیں کہ ملک میں خون خرابہ اور انتشار و بدامنی ابتر معیشت کیلئے زہر قاتل ثابت ہوگی، شہریار آفریدی کے بعد اب شبلی فرزا نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ عمران خان کا مقصود فوجی اسٹیلشمنٹ کیساتھ مذاکرات کے ذریعے ملک کو ہَیجانی کَیفِیَّت سے نکالنا ہے تاہم مذاکرات سے قبل ٹی آر اوز پر اتفاق رائے کیا جائے اور پھر مذاکرات کا عمل شروع ہو کیونکہ عمران خان فوج کو سیاست سے ہمیشہ کیلئے علیحدہ کرنے کا عزم کرچکے ہیں۔

لیکن اس کیلئے قابل ذکر سیاسی قوتوں سے بھی معاملات طے کرنا ہونگے، تاریخ پاکستانی سیاست کی اس سچائی کو نظرانداز نہیں کرسکتی کہ سیاست میں فوج کی اعلیٰ قیادت کے ملوث ہونے کی خواہش کیساتھ ساتھ سیاستدانوں کا قصور ہے جنھوں نے عوام کی حمایت سے اقتدار میں آنے کے بجائے چور دروازوں کا استعمال کرتے ہوئے فوج کو اپنی بیساکھی بنائی یہی وجہ ہے کہ عوام کی حمایت رکھنے والی سیاسی قوتوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی کبھی نہیں بن سکی۔

پاکستان میں عوامی راج کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فوج مقتدرہ نہیں ہے، بڑی رکاوٹ تو خاندانوں اور برادری کی سیاست  ہے، اس طرز سیاست کے حامل شخصیات ظلم و جبر کے نظام کو مسلط کرنے کیلئے طاقتور قوتوں سے مراسم رکھتے ہیں اورانہی میں سے تعلق رکھنے والے چالاک عناصر ہماری فوج کو بھی استعمال کرلیتے ہیں، یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں فوجی مقتدرہ بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار شروع کردیتی ہے اور اقتدار کا مزہ لینا شروع کردیتی ہے، فوج کے اندرون اوپر سے نیچے تک یہ سوچ راسخ ہوچکی ہےکہ سویلین کو انھوں نے راستہ دیکھانا ہے، جب کوئی فاسد نظریہ جڑ پکر جائے تو اس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے اور یہ ایسی صورتحال کو جنم دیتا ہے جس سے نظری اور عملی تصادم کا راستہ کھل جاتا ہے۔

مئی 9 کے حادثات سے تحریک انصاف برات کا اعلان کرتی ہے لیکن اُس دن نظری اور عملی تصادم کے جابجا مظاہرے دیکھنے کو ملے اور اس صورتحال کے وجود میں آنے سے سیاسی اور بیوروکریٹک مفاد پرستوں اور دشمنوں نے بہت انجوائے کیا، ھماری فوجی مقتدرہ  نے بھی اس موقع پر دانشمندی کا ثبوت نہیں دیا اور اس حادثے کو زندہ رکھنے پر زور دیا جس نے ہر گزرتے دن عوامی بے چینی کو بڑھایا، اسی صورتحال کو تحریک انصاف کی حقیقی قیادت ڈی فیوز کرنے کیلئے فوجی مقتدرہ سے باقاعدہ مکالمہ شروع کرنے کی خواہش ظاہر کررہی ہے، اگر اس عمل میں کامیابی حاصل ہوگئی اور عوامی احساسات کو بھی مدنظر رکھ کر فیصلے کرلئے گئے تو پاکستان کی سیاست مذموم سازشوں سے پاک ہوجائے گی۔

پاکستان کے موجودہ حالات میں فوجی مقتدرہ خاصی دباؤ میں ہے ججز کے خطوط، فوجی عدالتوں میں سویلین کے کیسز چلانا، جبر و تشدد سے عوام میں پیدا ہونے والا غصّہ اس بات کی متقاصی ہے کہ فوجی مقتدرہ کو پاکستان کی فوج کو سیاست کی دلدل سے نکالنے کی فکر کرنی چاہیئے کیونکہ ہمارے چاروں طرف دشمن تاک لگائے ہوئے ہیں، پاکستان کی چین کے علاوہ کوئی سرحد محفوظ نہیں ہے، پڑوسی ملکوں نے کھلی مداخلت جاری رکھی ہوئی ہے۔

بھارتی وزیر دفاع کہتے ہیں کہ اُن کی انٹیلی جنس نے پاکستان میں گُھس کر 20 افراد کو ہلاک کردیا، امریکی اور یورپی ملکوں کی ایماء پر کشمیر میں جہاد تقریباً ختم ہوچکا ہے، جسکا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مودی کی ہندو توا سے نظریاتی ہم آھنگی رکھنے والی حکومت نے کشمیریوں کے حقوق چھین لئے ہیں جبکہ پاکستانی تاجر و مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی بھارت سے تجارت کھولنے پر اصرار کررہے ہیں۔

امریکہ نے پاکستان کے میزائلز پروگرام سے مربوط چار غیرملکی کمپنیوں پر پابندی عائد کرکے ڈرانا دھمکانا شروع کردیا ہے، امریکہ جب کسی ملک پر پابندیاں لگانے کا عمل شروع کرتا ہے تو اس کا آغاز یوں ہی کرتا ہے، اگر عمران خان نے فوجی مقتدرہ سے بات چیت کا فیصلہ کرلیا ہے تو اس ریاستی ادارے کی قیادت کو بھی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، جہاں تک اس مکالمہ شروع کرنے کی بات کرنے پر پیپلزپارٹی کے فیصل کریم کنڈی اور مسلم لیگ(ن) کے سعد رفیق کی تنقید کی بات ہے اور پی ٹی آئی قیادت پر فوج کو سیات میں لانے کے خدشات پر مبنی الزامات کا تعلق ہے تو اِن دونوں حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور بالخصوص نوازشریف خاندان کی سیاست کا تعلق ہے تو وہ فوجی قیادت کی مہربانیوں کی مرہون منت ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے فیصل کنڈی نوجوان ہیں انہیں نہیں معلوم کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ سے ڈیل کرکے مجیب الرحمٰن کو الگ ملک بنادیا تاکہ وہ موجودہ پاکستان کے وزیراعظم بن سکیں۔

بے نظیر بھٹو جنرل ضیا سے ڈیل کرکے لاہور پہنچیں اور جنرل بیگ سے ڈیل کرکے وہ وزیراعظم بنیں دوسری مرتبہ وہ جنرل کاکڑ کی مہربانیوں کے نتیجے میں اقتدار میں آئیں، تیسری مرتبہ بے نظیر بھٹو جنرل پرویز مشرف سے این آر او لیکر پاکستان پہنچیں مگر زندگی نے بیوفائی کی اور اقتدار کے مزے آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی 2022ء میں جنرل باجوہ سے تاریک راتوں کی ملاقاتوں سے کون واقف نہیں جس کے نتیجے میں وہ ایک بار پھر صدر بن گئے، میرا خیال نہیں کہ عمران خان اپنے اقتدار کیلئے فوجی مقتدرہ سے کوئی رعایت مانگیں گے، اگر یہ خیال درست ہوا تو پاکستان ترقی اور خوشحال کی طرف ضرور گامزان ہوجائے گا۔

نوٹ: جی ٹی وی نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top