جمعرات، 9-مئی،2024
( 01 ذوالقعدہ 1445 )
جمعرات، 9-مئی،2024

EN

اسرائیل جنگی ہدف حاصل کرنے میں 99 فیصد ناکام، ایرانی صدر کا واضح پیغام

23 اپریل, 2024 17:16

امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیل غزہ کی پٹی میں حماس کی زیر زمین سرنگوں کو ختم کرنے کے اپنے جنگی ہدف کو حاصل کرنے میں 99 فیصد تک ناکام ہوچکا ہے۔

 امریکی اخبار نے اپنی خصوصی رپورٹ میں کہا ہے کہ زیر زمین سرنگوں کی موجودگی اسرائیلی جارحیت کے باوجود مزاحمتی گروپ حماس کو ازسرنو منظم کررہی ہے۔

، نیو یارک ٹائمز نے پیر کے روز موجودہ اور سابق امریکی انٹیلی جنس حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں وسیع پیمانے پر سرنگوں کے نظام کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے، جو سینکڑوں میل تک پھیلی ہوئی ہیں سرنگوں کا یہ نظام زیر زمین 15 منزلوں تک ایک بڑے کمپلیکس کی صورت میں حماس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام کو چلانے میں مددگار ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری کی وجہ سے برسرزمین بھاری نقصانات کے باوجود غزہ میں حماس کی زیادہ تر قیادت اپنی جگہ موجود ہے، سرنگوں اور آپریشن کے مراکز کے وسیع زیر زمین نیٹ ورک میں معمول کے کام انجام دیئے جارہے ہیں اور وہاں سے بھیجے گئے احکامات پر برسرزمین حماس اور الجہاد کے جنگجو (مجاہدین) اور سیاسی سیل عمل کررہا ہے اور یہ سرنگیں حماس کو لڑائی بند ہونے کے بعد دوبارہ ایک بڑی عسکری طاقت بناکر اسرائیل کیلئے چیلنج بنادیں گی۔

اسرائیل کی حزب اختلاف اور بیرون ملک تل ابیب کے حمایتی بلند آواز میں تل ابیب کی ناجائز حکومت کو یاد کرارہے ہیں کہ نتین یاہو غزہ کی پٹی پر وحشیانہ حملوں کے باوجود اپنے بنیادی اہداف حاصل کرنے میں ابتک مکمل طور پر ناکام رہی ہے، اسرائیل کے جنگی اہداف میں اوّلاً حماس کا خاتمہ تھا اور محصور فلسطینی علاقے سے اسرائیلی قیدیوں کو بازیاب کرانا شامل تھا، اِن دونوں اہداف کو اسرائیلی حکومت حاصل نہیں کرسکی ہے اور یہ پوشیدہ بات بھی نہیں ہے، سب جانتے ہیں غاصب اسرائیلی حکومت شدید دباؤ میں ہے اس کا ڈر اور خوف کی نکاسی ہوچکی ہے جبکہ ایران نے اسرائیل پر حملہ کرکے اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگادیا ہے، اسرائیل نے 7 اکتوبر کو حماس کے کامیاب آپریشن کے بعد امریکی اور بعض مغربی ملکوں کی حمایت اور تائید کیساتھ فلسطینیوں کی جس طرح نسل کشی کی وہ تاریخ میں سیاہ باب کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہے گی اور مستقبل کے مورخین ہالوکاسٹ کے بجائے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نسل کشی کو انسانیت کا دردناک موضوع قرار دیں گے، جہاں ماؤں کےپیٹ میں بچوں کو شہید کیا گیا اور مردہ ماں کے پیٹ سے زندہ وجود کو باہر نکالا گیا، غزہ کی پٹی میں بربریت کی جو دستانیں رقم ہوئی ہیں اپسے دستاویزی صورت دینے کیلئے مورخین کے ایک کمیشن کی ضرورت ہوگی۔

جھ ماہ کی جنگ کے بعد حماس اور دیگر مزاحمتی حصّار  نے اسرائیل کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے، جسے امریکہ بھی کسی حد تک تسلیم کرچکا ہے، اب تک تل ابیب حکومت کم از کم 34,151 فلسطینیوں کو شہید کر چکی ہے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں جبکہ 77,084 فلسطینیوں کو زخمی کرنے کے باوجود غاصب اسرائیل غزہ میں خالی ہاتھ کھڑا ہے، امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایک ریٹائرڈ افسر ڈگلس لنڈن نے کہا ہے کہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت جوان جسم کی مانند آج بھی ناقابلِ شکست صورت میں کھڑی مقابلہ کررہی ہے، اسرائیلحماس کو جتنا نقصان پہنچا سکتا تھا وہ پہنچا چکا ہے لیکن اس کے وجود کو ختم کرنے میں ناکام ہوا ہے، حماس کی صلاحیت، لچک، فنڈنگ اور محبت اور حمایت کرنے والوں لوگوں کی ایک لمبی قطار موجود ہے جو تمام لڑائی اور تمام تباہی اور جانی نقصان کے باوجود حماس کو سائن اپ کرنے اور شمولیت کے منتظر ہیں، پورے خطہ عربیہ میں امریکہ نواز حکومتیں جو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کیلئے قطار میں کھڑی تھیں آج اپنی عوام سے خوفذدہ ہیں جو حماس کے خلاف کوئی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہیں ذرا اکتوبر 7 کے بعد بعض عرب شاہی حکمرانوں کے بیانات اور کنٹرولڈ میڈیا میں شائع ہونے والے تبصروں کا جائزہ لیں اور اب حماس کے حوالے سے عرب حکمرانوں کی بدلی ہوئی سے رائے کو دیکھیں تو واضح ہوجائے گا کہ عرب رائے عامہ حماس کی طرفدار ہے۔

گذستہ مہینے امریکی انٹیلی جنس کے ایک جائزے میں حماس کو ختم کرنے کی اسرائیل کی صلاحیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ مزاحمتی گروپ اسرائیل  کے لئے مستقبل قریب میں ایک سنگین چیلنج بن کر اُنھر سکتا ہے، اسرائیل کو ممکنہ طور پر آنے والے برسوں میں حماس کی طرف سے مسلح مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور حماس کے زیر زمین انفراسٹرکچر کو بے اثر کرنے کے لئے اسرائیلی فوج کو اپنی جان جوکھم میں ڈالنا پڑے گی، یعنی تل ابیب کا امتحان ختم نہیں ہوا، جب تک اسرائیل دو ریاستی حل کے ذریعے ایمانداری کیساتھ فلسطینی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا مزاحمت اس کے وجود کو کھاتی رہے گی، یہاں ہمیں فلسطینی حاکمیت کی وضاحت ضرور کرنی ہوگی، اس کا مطلب واضح اور دو ٹوک ہے کہ 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ سے قبل کے عرب علاقوں پر فلسطینی حاکمیت کو تسلیم کرنا ہے، فلسطینی مہاجرین کی واپسی کو یقینی بنانا، دوہری شہریت رکھنے والے یہودیوں کو کسی ایک ملک کے انتخاب کا حق دینا یہودی شہریوں کیلئے اوسلو معاہدے کے بعد بنائی گئی یہودی بستیوں کو مسمار کرنا فلسطینی حاکمیت کی چند شرائط ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ مسلم اُمہ ایک جوٹ ہوکر فلسطین کی آزادی کیلئے منظم منصوبہ بندی کیساتھ عملیات سروع کردے، ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رائیسی نے اپنے دورہ پاکستان میں حکومت اور مقتدر حکام کو یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے اور باور کرایا ہے کہ مسلم دنیا اسرائیلی خوف کے حصار سے نکل چکی ہے جبکہ مسلمان حکومتیں اسرائیل اور اس کے تمام حمایتوں سے ایک ساتھ لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

نوٹ: جی ٹی وی نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top