ہفتہ، 27-جولائی،2024
( 21 محرم 1446 )
ہفتہ، 27-جولائی،2024

EN

سی پیک سے فوائد کے حصول کیلئے چینی شہریوں کی سلامتی یقینی بنائی جائے

27 مارچ, 2024 17:53

چین کیلئے  پاکستان میں معاشی منصوبوں پر کام کرنے کیلئے حالات سازگار نہیں رہے ہیں کیونکہ پاکستان میں ایک سے زائد  دہشت گرد گروپ چینی انجینئرز اور ماہرین کو دہشت گردی کا نشانہ بنارہے ہیں۔

منگل 26 مارچ 2024ء کو شانگلہ کے مقام پر ایک بار پھر  پانچ چینی انجینئرز اور ٹیکنیشنز کو نشانہ بنایا  گیا جو اسلام آباد سے داسو  ڈیم کی سائٹ کی طرف جارہے تھے، جب کہ 26 اپریل 2022ء کو عمران خان کی حکومت گرائے جانے کے فوراً بعد جامعہ کراچی میں چینی ثقافت اور زبان سکھانے والے ادارے کے باہر خودکش دھماکے میں تین چینی اساتذہ اور ایک پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہو گئے تھے جس کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔

اس سے قبل جولائی 2021ء میں اپر کوہستان کے علاقے داسو میں ڈیم کی تعمیر کے دوران دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا تھا، جس میں 9 چینی انجینئرز سمیت 13 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے، پاکستان میں کام کرنے والے چینی باشندوں کو بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے کئی بار کھلی دھمکی دی جا چکی ہیں، جس میں انہوں نے بلوچستان میں چینی باشندوں کو کام کرنے سے منع کیا ہے۔

چینی شہریوں کے خلاف منظم دہشت گردی  کے تناظر میں اکتوبر 2023ء  میں چین کی طرف سےاعلیٰ ترین سطح پر واضح پیغام دیا گیا تھا کہ چین جن ترقیاتی منصوبوں پرپاکستان میں  کام کررہا ہے وہ اُسی وقت جاری رکھے جاسکتے ہیں جب چینی شہریوں کے تحفظ اور ان کی سلامتی کو یقینی  بنایا جائے۔

چینی صدر شی جن پنگ نے پاکستان  کےنگراں  وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کو اس پیغام کیساتھ اسلام آباد واپس بھیجا تھا کہ   پاکستان چینی اداروں اور اہل کاروں کے تحفظ کی ضمانت دے ،  چین نے پہلی مرتبہ سی پیک منصوبوں پر کام جاری رکھنےکو چینی شہریوں کے تحفظ  کی ضمانت سے مشروط کیا تھا حالانکہ  پاکستان میں چینی شہریوں کے خلاف دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد بیجنگ نے شدید ردعمل کا اظہار  کیا جس میں غصّے کا عنصر بتدریج بڑھتا رہا ہے۔

پاکستان میں چین کے جاری منصوبوں میں سڑکوں کی تعمیر، توانائی اور آبی منصوبے، نیوکلیئر توانائی کے منصوبوں، فوجی نوعیت کے پراجیکٹس اور دیگر نجی اداروں میں چینی شہری تندہی سے کام کررہے ہیں جو زیادہ تر تیکنیکی نوعیت کے کاموں سے منسلک ہیں، جبکہ بہت جلد  چین کی مدد اور سرمایہ کاری سے پاکستان میں چھ ارب ڈالر کی لاگت سے ریلوے لائن کو اپ گریڈ کرنے کے منصوبے ایم ایل ون پر بھی کام شروع ہونے جا رہا ہے۔

چین پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانا چاہتا ہے  ، پاکستان کی حکومت اور مقتدر  طاقتوں سے چین کا اپنے  شہریوں کی  سکیورٹی  یقینی بنانا اور نوکرشاہی رکاوٹوں کو دور کرنے کا مطالبہ درست اور جائز ہے، پاکستان اور چین دونوں ملکوں کیلئے  سی پیک  منصوبے کی کامیابی  خطے میں معاشی سرگرمیوں میں اضافے کیلئے ناگزیر ہے، جس سے جنوبی اور مغرقی ایشیائی ملکوں  میں غیر ایشیائی ملکوں کا سیاسی اثر و رسوخ کم ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں چین سے آنے والی لگ بھگ تمام تر سرمایہ کاری سی پیک کے منصوبوں کے تحت ہوتی ہے جس میں گذشتہ چند سالوں میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے، سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ  چین سے پاکستان میں آخری بار سب سے زیادہ سرمایہ کاری دسمبر 2019 میں کی گئی تھی اور اس کا حجم 30 کروڑ ڈالر تھا، اس کے بعد اس سرمایہ کاری میں بتدریج کمی آنا شروع ہوئی اور مختلف مہینوں میں تھوڑے بہت اضافے اور کمی کے بعد یہ مجموعی طور پر 20 کروڑ ڈالرسے کم ہی رہی۔

جولائی تا نومبر 2022 تک، چین کی براہ راست سرمایہ کاری کا حجم 102 ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا، تاہم اس کے بعد چار ماہ (دسمبر 2022 تا مارچ 2023 ) کے دوران چین نے پاکستان کے مختلف شعبوں میں مزید 217.2 ملین ڈالر سرمایہ کاری کی، بورڈ آف انویسٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق فروری اور مارچ 2023 کے دوران پاکستان کو چین سے مزید 119 ملین ڈالر موصول ہوئے، جس سے دوست پڑوسی ملک سے براہ راست سرمایہ کاری کا مجموعی حجم 319.2 ملین ڈالر تک پہنچ گیا، اگرچہ کورونا وائرس کے اثرات نے بھی چینی سرمایہ کاری کو متاثر کیا تاہم ان اثرات کے زائل ہونے کے بعد بھی یہ سرمایہ کاری دوبارہ اپنی بلند سطح پر نہیں پہنچ سکی۔

چینی سرمایہ کاری میں کمی کے پس پردہ سکیورٹی کے خطرات سب سے اہم  ہیں لیکن چینی انجینئرز پر ہونے والا حالیہ حملہ  چین کو پاکستان میں سرمایہ کاری سے نہیں روکے گا جس کا دونوں ملک عزم کرچکے ہیں مگر پاکستان کے سکیورٹی اور حساس اداروں کو ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا، غیر ضروری مفادات کی طرف پیش رفت کے بجائے  اُن غیر ملکی پراکسی اور ایجنٹوں کا پیچھا کریں جو دہشت گرد حملوں کے ذریعے  پاکستان کے معاشی سدھار کیلئے خطرہ ہیں۔

پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے خلاف امریکہ کھلم کھلا اپنے تحفظات کا اظہار کرتا ہے جبکہ ہندوستان کو بھی سی پیک منصوبے کے راستے پر اعتراض ہے حالانکہ ہندوستان اس تجارتی راستے کو استعمال کرکےاپنی  غذائی اجناس اور پھل کسی نقصانکے بغیر کم وقت میں مشرق وسطیٰ کی مارکٹ تک پہنچا سکتا ہے، امریکہ ایک حکمت عملی کے تحت چین اور پاکستان بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات اور سی پیک منصوبے کو  چند سالوں سے پیچھے دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہے،ان کوششوں کی بنیادی وجہ امریکہ کے عالمی اور علاقائی سلامتی کے مسائل ہیں۔

پاکستان   کی حکومت اور فوجی مقتدرہ کو ستمبر 2023ء  میں امریکی سفیر کو دورہ گوادر کی اجازت نہیں دینی چاہیئے تھی، وہاں امریکی سفیر کا کوئی کام نہیں ہے، گوادر  میں چین کے ترقیاتی منصوبے جاری ہیں اس اقدام سے اندرون ملک سی پیک مخالف قوتوں کو حوصلہ ملا  ہے اور امریکہ کی جانب سے بھی یہی پیغام دیا گیا۔

پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے دورے کو خطے کی سیاست کے تناظر میں اہم قرار دینے کی کوشش کی، ڈونلڈ بلوم نے گوادر میں سیاسی رہنماؤں، گوادر ایوان ہائے صنعت و تجارت کے نمائندوں اور حکومتی اور نجی شعبے کے مختلف رہنماؤں سے ملاقات کی۔ امریکی سفیر کا دورہ گوادر ایسے وقت کیا  گیا جب چین اور پاکستان سی پیک فیز ٹو پر  بات  چیت کر رہے ہیں جس میں مختلف خلیجی ممالک  کوشامل کرنے کیلئے ہوم ورک مکمل کیا جارہا ہے۔

سعودی ولی عہد و وزیراعظم محمد بن سلمان  سی پیک منصوبے میں سرمایہ کاری  کرنے میں دلچسپی کا اظہار کرچکے ہیں، جب امریکہ کا اس منصوبے سے لینا دینا نہیں ہے تو  کیوں امریکی سفیر کو گوادر جانے کی اجازت دی گئی، پاکستان کی موجودہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اعلیٰ سطح پر بیجنگ کو اعتماد میں لیں  اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات سے آگاہ کریں اور چینی شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے جامے حکمت عملی بنائیں۔

نوٹ: جی ٹی وی نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top