جمعہ، 17-مئی،2024
( 09 ذوالقعدہ 1445 )
جمعہ، 17-مئی،2024

EN

کسی ایجنسی یا سیاسی جماعت کے ہاتھوں عدالتیں استعمال نہیں ہونے دینگے، چیف جسٹس

30 اپریل, 2024 13:32

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ کسی بھی ایجنسی یا سیاسی جماعت کے ہاتھوں عدالتیں استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کا عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے خلاف لکھے خط سے متعلق سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت جاری ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں6 رکنی لاجر بینچ نےکیس کی سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ سمیت جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ کمیٹی نے فیصلہ کیا تمام دستیاب ججز پر مشتمل بنچ تشکیل دیا جائے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے بینچ سے علیحدگی کا نوٹ لکھا وہ ایک آرڈر ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پہلی سماعت پر کہا تھا فل کورٹ تشکیل دیا جائے گا، لگتا ہے لوگ عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے، ہم نے عدلیہ کی آزادی کو ہر صورت یقینی بنانا ہے چاہے جو مرضی ہو جائے۔

انہوں نے کہا کہ میں سپریم کورٹ کی تاریخ کا ذمے دار نہیں جب کہ میں صرف بطور چیف جسٹس پاکستان کی حیثیت ست ذمےدار ہوں۔

ملک میں سچ بولنا مشکل، کہا جاتا ہے ہمیں معلوم ہے تمہارے بچے کہاں پڑھتے ہیں، جسٹس اطہر

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ہم نے جو نوٹس لیا ہے ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے، اس ملک میں سچ بولنا مشکل ہے، ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہمیں معلوم ہے تمہارے بچے کہاں پڑھتے ہیں۔

جسٹس جمال کا کہنا تھا کہ کوئی جج کسی کےخلاف فیصلہ کرتا ہے تو مہم شروع ہوجاتی ہے، جج کے خلاف کہیں سے کوئی ریفرنس آجاتا ہے، سچ سب کو پتا ہے لیکن کوئی بولتا نہیں اور جو بولتا ہے اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو6ججز کے ساتھ ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کے پاس اختیار ہیں تو استعمال کیوں نہیں ہوتے، ایسا ریفرنس پھاڑ کر پھینک کیوں نہیں دیا جاتا؟

ایجنسی وزیراعظم کے کنٹرول میں ہے، اگر کچھ غلط ہوتا ہے تو وزیراعظم اور کابینہ ذمہ دار ہیں، سپریم کورٹ

سماعت کے دوران جسٹس اطہر نے کہا کہ ایجنسی وزیراعظم کے کنٹرول میں ہے، اگر کچھ غلط ہوتا ہے تو وزیراعظم اور کابینہ ذمہ دار ہیں، پاک فوج کا امیج بھی برقرار رکھنا ہے، اگر کوئی مداخلت میں ملوث ہے تو فوج کا امیج خراب ہوتا ہے۔

جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ بڑا بھائی سب دیکھ رہا ہے یہ کیا کلچر ہے، ایک کمرے میں نہ بیٹھو، اُدھر بیٹھو کوئی سن لے گا، یہاں کوئی بات نہ کرو کوئی سن لے گا، یہ کیا کلچر ہے۔

فون ٹیپنگ پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بہت پہلے کی بات ہے کسی نے مجھے کہا فون ٹیپ ہو رہا ہے، میں نے کہا ٹھیک ہے، ٹھیک طریقے سے انھیں سننے دیں۔

عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل پاکستان منصور اعوان سے استفسار کیا کہ کون سا قانون ہے جو ایجنسیوں کو کنٹرول کرتا ہے، اگلی پیشی پر بتائیں کہ ایجنسیوں کا دائرہ کار کیا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ جن کو دباؤ نہیں برداشت کرنا انکو ججز کی کرسی پر ہی نہیں بیٹھنا چاہئے جب کہ ادھر جسٹس اطہر نے کہا کہ جوکچھ جسٹس بابر ستار کے ساتھ ہوا ، کیا یہ ہونا چاہیے تھا؟

میں نے لکھ کر دیا تھا فیض آباد دھرنے کے پیچھے جنرل فیض حمید ہے، چیف جسٹس پاکستان

فیض آباد دھرنا کیس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے لکھ کر دیا تھا کہ دھرنے کے پیچھے جنرل فیض حمید ہے، پارلیمنٹ کو مضبوط نہیں کریں گے تو دوسری طاقتیں مضبوط ہوں گی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top