ہفتہ، 27-جولائی،2024
( 21 محرم 1446 )
ہفتہ، 27-جولائی،2024

EN

کنٹونمنٹ بورڈز قانون کے تحت ٹیکس وصول کرسکتے ہیں، سپریم کورٹ

19 مارچ, 2024 14:29

سپریم کورٹ آف پاکستان نے صوبہ سندھ میں واقع کنٹومنٹس بورڈز کی جانب سے ٹیکس وصولی کے معاملہ پرصوبہ سندھ کو قانون سازی کے لئے ایک ماہ کی مہلت دے دی۔

سپریم کورٹ میں صوبہ سندھ میں واقع کنٹونمنٹ بورڈز کی جانب سے وصول ٹیکس کی تقسیم کے معاملے پرجسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میںجسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

وفاق کی جانب سے سیکرٹری دفاع،  ایگزیکٹو آفیسر، فیصل کنٹونمنٹ بورڑ کراچی،ایگزیکٹو آفیسر کنٹونمٹ بورڈ کلفٹن، ایگزیکٹو آفیسر کنٹونمنٹ بورڈ کورنگی کریک، کنٹونمنٹ ایگزیکٹو آفیسر کراچی کنٹونمنٹ بورڈ کی جانب سے مینیجنگ پارٹنر، کراچی اوردیگر کے توسط سے ایم ایس ملینیم مال مینجمنٹ کمپنی سمیت دیگر کے خلاف سالانہ کرائے کی مالیت کے حساب سے ٹیکس کے مطالبے، حکم امتناع جاری کرنے اور فریق بننے کی اجازت دینے کے حوال سے 134 درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر منصور عثمان اعوان اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ حسن اکبر ایڈووکیٹ عدالتی نوٹس پر پیش ہوئے۔ جبکہ فریقین کی جانب سے ایان مصطفی میمن، خواجہ شمس الاسلام ،اصغر علی اور دیگر بطور وکیل پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ مدعا علیہ ایم ایس ملینیم مال کی جانب سے التوا کی درخواست آئی ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیئے کہ 1958 کے پراپرٹی ٹیکس قانون پر 1979 میں ایک صدارتی آرڈر جاری ہوا۔

آٹارنی جنرل نے کہا کہ آٹھویں ترمیم کے ذریعے 1985 میں ضیاالحق نے اس صدراتی آرڈرکو آئینی تحفظ دیا۔اٹارنی جنرل نے مئوقف اپنایا کہ 2010 میں 18ویں ترمیم میں بھی اس معاملے میں چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی، کینٹ بورڈز کا ٹیکس وصول کرنا صوبائی نہیں وفاقی معاملہ ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق اکٹھے کیئے گئے ٹیکس میں 15 فیصد حصہ سندھ حکومت کوجائے گا اور باقی 85 فیصد حصہ کنٹونمٹس کے پاس رہے گا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ اس کو صوبائی یا وفاقی قانون کہیں گے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ وفاقی قانون ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ جب صدارتی آرڈینس آیا تواس وقت شہری علاقہ میں پراپرٹی ٹیکس لگانے کا اختیار کس کے پاس تھا، فیڈرل لاء کیسے بن گیا تھا۔

جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا اس وقت نہیں دیکھتے تھے کہ صدر ہر چیز کے بار ے میں صدارتی آرڈر جاری کرسکتا تھا کہ انہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ اس وقت آئین معطل تھا۔ عدالت عظمیٰ نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ وہ سندھ حکومت سے ہدایات لے کر عدالت کورٹ آئندہ سماعت پر آگاہ کریں۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ آئندہ سماعت تک کنٹونمنٹ بورڈز 1958 کے ایکٹ کے تحت ٹیکس وصول کرسکتے ہیں۔

اب تک اکٹھا کیا گیا ٹیکس واپس کرنے کے حوالہ سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کی جانب سے دیا گیا حکم امتناع برقرار رہے گا جب کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ اسمبلی کوآج قانون سازی سے کوئی نہیں روک رہا، 1958کے ایکٹ کو 2024 میں بحال کردیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

عدالت نے کہا کہ 1979 میں بریک آئی جو ہمارے لئے مسئلہ بن رہی ہے، 18ویں ترمیم میں کہا گیا ہے کہ صوبائی اسمبلی قانون بنا سکتی ہے، ناک کو گھمانا چاہتے ہیں تو گھماتے رہیں، ہم آرڈر میں لکھ دیتے ہیں کہ سندھ اسمبلی قانون سازی کرے، انتظامی اور قانونی سطح پر سندھ حکومت آسانی سے مسئلہ حل کرسکتی ہے،کیوں ہمیں اتنے مشکل سوال میں ڈال رہے ہیں، یہ ہمارے لئے غیر ضروری مشق ہے۔

جب کہ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا ہے کہ سندھ اسمبلی کوفیصلہ کرنے دیں، صوبائی اسمبلی ترمیم کرے یہی سندھ ہائی کورٹ نے کہا ہے۔

اس موقع پراٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ یہ کوئی ٹیکس ادانہیں کررہے نہ سندھ حکومت کو اور نہ ہی وفاقی حکومت کو۔ جسٹس سید منصور نے کہا کہ ٹیکس تودینا ہے، 1958کے ایکٹ کے نیچے ٹیکس دینا شروع کردیں۔

مدعا علیحان کے وکیل بیرسٹر ایان مصطفی میمن کا کہنا تھاکہ 50 ہزار ٹیکس ہے، یہ 5لاکھ روپے لے رہے ہیں، 1988 میں بے نظیر بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے کہا آرٹیکل 270 کے تحت جن شقوں کو تحفظ دیا گیا ان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

سماعت کاحکم لکھواتے ہوئے جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ 1958کے ایکٹ کے تحت کنٹونمٹس ٹیکس وصول کریں گے اور سپریم کورٹ کی جانب سے دیا گیا سابقہ ریلیف برقراررہے گا۔

بعد ازاں عدالت نے درخواستوں پر مزید سماعت 22 اپریل تک ملتوی کر دی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top