اتوار، 8-ستمبر،2024
( 05 ربیع الاول 1446 )
اتوار، 8-ستمبر،2024

EN

کیا پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہیں کرسکتا؟

22 جولائی, 2024 16:08

پاکستان کے لئے سات ارب ڈالر قرض پروگرام کی منظوری حکومت کیلئے ایک بڑی کامیابی تو ہوسکتی ہے مگر حقائق اور ملکی صورتحال کسی اور حقیقت کی طرف نشاندہی کررہے ہیں۔

ملکی اور بین الاقوامی ماہرینِ معاشیات پاکستان کو درپیش سیاسی اور معاشی چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی انتہائی غیر مقبول حکومت جو مبینہ طور پر انتخابی نتائج میں ہیر پھیر کرانے کے بعد برسراقتدار لائی گئی ہے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط پر عملدرآمد نہیں کرسکے گی، آئی ایم ایف نے بیل آؤٹ قرضہ پروگرام کے تحت پاکستان کو سات ارب ڈالر دینے کی منظوری کی نوید سنائی ہے مگر 37 ماہ کے پروگرام کے تحت یہ رقم قسط وار پاکستان کو دی جائے گی اور ہر قسط سے قبل آئی ایم ایف کا جائزہ مشن پاکستان آئے گا اور پاکستان کی معاشی پالیسیوں پر اپنی رائے مسلط کرکےحکومت کونئے مالی وسائل پیدا کرنے کے نام پر عوام کا خون نچوڑنے کے سلیقے سکھانے کے بعد نئی قسط کیلئے ایک رپورٹ مرتب کرنے کے وعدے کیساتھ واشنگٹن روآنہ ہوجائے گا اور یہاں اسلام آباد میں اعلیٰ معاشی منتظمین ائیر کنڈیشن ماحول میں عوام کی جیبیں خالی کرنے کی منصوبہ بندی بنانا شروع کردیں گےاور یہ دو دھاری تلوار کی طرح اسلام آباد پر آخری قسط تک لٹکتی رہے گی، پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف جو انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کے نتیجے میں وزیراعظم کے منصب پر بیٹھا دیئے گئے ہیں مگر میں ذاتی طور پر اِن کیساتھ منتخب کی اضافت لگانا جرم سمجھتا ہوں ، وہ کہتے ہیں کہ 7 ارب امریکی ڈالر کا آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کا آخری قرضہ ہوگا جو پاکستان کی حکومت اپنے اخراجات پورا کرنے کیلئے لے رہی ہے، خیال رہے کہ پاکستان کو مستقبل قریب میں بیرونی قرضوں اور دیگر ادائیگیوں کیلئے آئی ایم ایف کا قرضہ بڑی اہمیت رکھتا ہے، جس کا بیشتر حصّہ پرانے قرضوں کی ادائیگی اور فوجی اخراجات پر لگایا جائیگا۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پروگرام کی سخت شرائط سے مہنگائی بڑھے گی، جس سے غربت میں اضافہ ہوگا اور یوں ملک میں سماجی بے چینی ازخود افراتفری کو ہوا دے گی، معاشرتی ناہمواری تو ہمیں ورثے میں ملی اب سماجی بے چینی اور معاشرتی ناہمواریوں کو آپس میں ضرب کرکے دیکھا جائے تو شکست و ریخت ہی انجام دکھائی دیتا ہے، اِن حالات میں حکومت کا کمزور سیاسی مینڈیٹ ،معیشت کے اصلاحاتی پروگرام کیلئے عوامی حمایت نہ ملنے پر ناکامی کا سامنا کرتا ہے جیساکہ ہم حالات حاضرہ کو نگاہ دوڑا کر خود دیکھ سکتے ہیں، ٹیکس اصلاحات پاکستان کیلئے بہت ضروری ہیں مگر اصلاحات کسی دور حکومت میں نہیں ہوسکی اور اب بھی نہیں ہورہی ہے سب کا سب ڈھونگ ہے، نادیدہ قوتیں ، حکومت اور پارلیمنٹ صرف اور صرف اشرفیہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں، بجلی کا ایک یونٹ استعمال کرنے پر ایک عام آدمی کو 8 روپے براہ راست ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ اشرافیہ کو ہزاروں یونٹ بجلی مفت استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے، اس طرح کی دو عملیاں عوام کو مایوسی کا شکار بناتی ہیں اور عوام کی مدد کے بغیر کوئی بھی معاشی اصلاحات کامیاب نہیں ہوسکتیں۔

آئی ایم ایف کے جاری کردہ بیان کے مطابق پاکستان کیلئے 7 ارب ڈالر قرضہ پروگرام شروع کرنے کیلئے ابھی اسٹاف لیول پر اتفاق رائے ہوا ہے، معاہدہ اس کے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے اور اگر اس دوران سیاسی بے چینی پیدا ہوگئی تو گئی بھینس پانی میں۔۔۔قرضے کی پہلی قسط ملنے سے پہلے پاکستان کو متعدد سخت وعدے پورے کرنے ہوں گے اور مالیاتی یقین دہانیاں بھی پوری کرنا ہوں گی، آئی ایم ایف نے پاکستان کے دوست ممالک چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پیرس کلب کے قرضوں میں رعایت حاصل کرنے کی ایک شرط اس پروگرام کو شروع کرنے سے مشروط کی ہے ، ریاست کی غلام گردشوں میں یہ خبر انتہائی غم کیساتھ سنی جارہی ہے کہ چین فی الحال پاکستان کو کسی بھی طرح کی رعایت دینے کیلئے تیار نہیں ہے، اس وقت پاکستان پر سب سے زیادہ قرض چین کا ہے جو مجموعی قرض کا تقریباً 30 فیصد ہے، پاکستان میں توانائی سمیت دیگر شعبوں میں کی جانے والی چین کی سرمایہ کاری پر قرض کی رقوم اب واپس کرنی ہے، خبریں تھیں کہ پاکستان کے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب گذشتہ ہفتے چین کا دورہ کرنے والے ہیں لیکن یہ خبر پروپیگنڈا ثابت ہوئی کیونکہ چین پاکستان کو ٹف ٹائم دے رہا ہے، پاکستان کے معاشی منتظمین کی خواہش ہے کہ توانائی سمیت دیگر شعبوں میں پاکستان کو چین کی جانب سے ملے قرضوں کی ری شیڈولنگ اور ری اسٹرکچرنگ پر بات کی جائے مگر جب چین ہمیں منہ لگائے ، بیجنگ میں قائم ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) کے سینئر اہلکار اور پاکستان کے سابق ڈپٹی گورنر مرتضیٰ سید نے بتایا ہے پاکستان چین کے مقابلے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور پیرس کلب جیسے کثیر الجہتی ترقیاتی بینکوں کا زیادہ مقروض ہے، قرضوں کے اس طرح کے دباؤ کا سامنا کرنے والے دوسرے ممالک سے پاکستان کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے دلیل دی کہ ہم اس کشتی میں سوار نہیں ہیں، جس میں دیگر ممالک سوار ہیں اور جن کا چین اہم قرض دہندہ ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق قائم مقام گورنر مرتضیٰ سید نے ایک ٹویٹ میں آئی ایم ایف کی ایگزیکٹو بورڈ سے 7 ارب امریکی ڈالر قرضے کی منظوری کیلئے پاکستان کو اپنے ترقیاتی اور دو طرفہ شراکت داروں سے مالیاتی یقین دہانیوں کی ضرورت ہے، آئی ایم ایف کا پروگرام پاکستان کو انتہائی ضروری ریلیف فراہم کرے گا، معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل اس سے حل نہیں ہوسکتے، ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا، وفاقی اخراجات اور سرکاری و سیاسی اشرافیہ کیلئے مختص مراعات کو فی الفور ختم کرنا ہوگا، مرتضیٰ سید کا کہنا ہے کہ اسٹاف لیول سطح پر آئی ایم ایف اور پاکستان کے معاشی منتظمین کے درمیان اتفاق رائے پر مبنی معاہدہ نامکمل ہے کیونکہ پاکستان کو اپنے تمام بڑے بیرونی قرض دہندگان بشمول بین الاقوامی ترقیاتی بینک، بانڈ ہولڈرز، پیرس کلب اور چین سے قرضوں میں ریلیف کی ضرورت ہے، چین کے ساتھ پاکستان کا ایکسپوژر نسبتاً کم ہے، اس لئے یہ ہمارے قرض کے مسائل خود حل نہیں کر سکتا، چین بڑی تصویر کا صرف ایک حصہ ہے، واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیائی امور کے اسکالر مائیکل کوگل مین نے اس رائے کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے گذشتہ سال کے دوران مشکل سے حاصل کردہ میکرو اکنامک استحکام کی تعریف کی ہے، مرتضیٰ کی توئٹ پر تبصرہ کرتے ہوئےانسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اکبر ایس زیدی نے لکھا کہ آئی ایم ایف پیکج جشن منانے کے لئے نہیں ہے کیونکہ یہ ہماری ناکامیوں کا اعتراف ہے، ہم بار بار آئی ایم ایف کے پاس جا کر مسلسل ناکام ہو رہے ہیں، اکبر زیدی کی رائے سے تمام معاشی ماہرین اتفاق کریں گے سوائے نادیدہ قوتیں اور حکومت جسے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے، حکومت معاشی اصلاحات کا عمل اپنے اخراجات کم کرنے سے کرئے، اشرافیہ کی مراعات فوراً کم درجے پر لائی جائیں، حکومت کے من پسند منتخب نمائندوں کو ترقیاتی بجٹ دینے کا سلسلہ بند کیا جائے یہ سیاسی رشوت کے زمرے میں لائی جائے، اسی طرح تمام کارروباری اداروں کو ٹیکس میں دی گئی چھوٹ ختم کی جائے چاہے وہ شہداء کے نام پر لی جارہی ہو۔

نوٹ: جی ٹی وی نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top