جمعہ، 17-مئی،2024
( 09 ذوالقعدہ 1445 )
جمعہ، 17-مئی،2024

EN

بلاول بھٹو زرداری کا فضل الرحمٰن کو قیمتی مشورہ

20 اپریل, 2024 18:53

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کو انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنا ہے تو خیبرپختوخوا میں کریں۔

بلاول بھٹوزرداری نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ مولانا فضل الرحمان سندھ میں احتجاج کریں مگر احتجاج حقیقت پر مبنی ہونا چاہیئے، مولانا تحقیقات کریں ان کے لوگ غلط بیانی کر رہے ہیں کہ سندھ میں پیپلزپارتی نے انتخابی دھاندلی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاج سے دنیا کو غلط پیغام گیا، اپوزیشن کا پارلیمنٹ میں صدر کے خطاب کے دوران احتجاج جمہوری نہیں تھا، پارلیمانی دائرے میں اپوزیشن کی تنقید کو ویلکم کرتے ہیں۔

بلاول بھٹو چھوٹی عمر میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر بن تو گئے مگر وہ اس استعداد کے مالک نہیں تھے کہ جو سیاسی استعداد اُن کی والدہ اور نانا میں تھی، محترمہ بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو آصف زرداری ملک سے باہر رہتے جیسا کہ اُنھوں  نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا، اس حالت میں بلاول بھٹو زرداری کو سیاست کی بساط پر مہرہ بنایا جاسکتا تھا وہ بلاول بھٹو کو تعلیم مکمل کرنے پر زور دیا کرتی تھیں جس کا اظہار محترمہ بے نظیر بھٹو کی معتمد خاص ناہید خان بیان کرتی ہیں۔

ناہید خان کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ محترمہ بلاول کو سیاست سے دور رکھا کرتیں تھیں اور اس بات پر آصف زرداری سے اختلاف تھا، محترمہ بے نظیر بھٹو کے اہم مشاورین میں امین فہیم، ناہید خان، صفدر عباسی، منور شہرودی، آصف کھوسہ، مرتضیٰ پویا، جہانگیر بدر، اعتزاز احسن سمیت بڑے سیاستدان اس فہرست میں موجود تھے، جنھیں آصف زرداری نے غیر فعال کردیا یا پھر پارٹی سے نکادیا ہے جبکہ مخدوم امین فہیم اور جہانگیربدر اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے۔

بھٹو خاندان کی بدنصیبی کہیے کہ اس خاندان کا کوئی فرد اس وقت سیاست میں فعال نہیں سندھ کے عوام کو ذوالفقار علی بھٹو جونیئر اور فاطمہ بھٹو سے اُمیدیں ہیں مگر وہ کب سیاست میں فعال ہوتے ہیں اندازہ لگانا مشکل ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے ساتھ ہی بھٹو سیاست کا خاتمہ ہوگیا تھا، اس وقت سندھ میں زرداری سیاست کا دور چل رہا ہے اور پیپلزپارٹی پر آصف زرداری کے وفاداروں کا غلبہ ہے، بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی کے اندر زبردست چیلنج کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، پیپلزپارٹی  کے اندرونی سیاست سے وافق شخصیات کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کو اپنی بہن آصفہ سے مقابلہ کرنا ہے، جنھیں آصف زرداری بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور انہیں بلامقابلہ منتخب کراچکے ہیں۔

مجھے جماعت اسلامی کے نائب امیر مولانا جان محمد عباسی مرحوم و مغفور کی یاد آرہی ہے اُنھوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنے حلقے میں بڑے مضبوط اُمیدوار تھے مگر انھوں نے بلا مقابلہ منتخب ہونے کی خواہش میں مجھے اغواء کراکے اپنی سیاسی زندگی پر سیاہ دھبہ لگالیا جو اُن کے اس دنیا سے جانے کے باوجود نہیں دھل سکا، ممکن ہے آصفہ اپنے آبائی حلقے سے انتخاب لڑکر جیت جاتیں تو اُن کا سیاسی مقام مختلف ہوتا۔

بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ کے قاتلوں کے مقدمے میں عدل دلچسپی کا اظہار کرکے اپنی سیاست کی شروعات میں ہی سنگین غلطی کی تھی، اسکا اب اِزالہ بھی ممکن نہیں ہے، پاکستان کی پہلی خاتون سیاستدان محترمہ بے نظیر بھٹو جو ملک کی دو مرتبہ پرائم منسٹر رہیں اور اِن کا بھرے مجمع میں بہیمانہ قتل ہوتا ہے، جس کے بعد پیپلزپارٹی دو مرتبہ وفاق میں حکمراں رہی مگر جس خاتوں نے مردانہ وار جنرل ضیاء کی آمریت کا مقابلہ کیا اور جس کو منصوبہ بندی کیساتھ راستے سے ہٹایا گیا اور اُسکی گدی پر بیٹھنے والوں نے سچائی کیساتھ مقدمہ لڑنا بھی گوارہ نہ کیا۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری زبانی کلامی بھٹو اور بے نظیر کے وارث بننے کے بجائے اُن کی سیاست کو اسٹیڈی کریں قومی اسمبلی میں اُن کی تقریروں اور ریمارکس پر مبنی ریکارڈز کو پڑھیں اور سننیں تاکہ وہ عوامی پلیٹ فارم پر کسی ایسے عمل کی نفی نہ کریں جو پیپلزپارٹی کی سیاست کا حصّہ رہی ہو، بلاول بھٹو نے پارلیمنٹ میں صدر کے خطاب کے دوران اپوزیشن کے احتجاج غیر جمہوری دیا۔

اُنھیں نہیں معلوم کہ صدر اسحاق خان کے غیر جمہوری رویوں کے خلاف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو نے گو بابا گو کے نعرے لگائے اور اپوزیشن سے لگوائے بس فرق یہ تھا کہ موجودہ اپوزیشن صدر زرداری کے غیر جمہوری رویوں کے خلاف گو زرداری گو کے نعرے لگارہے تھے، بلاول بھٹو  کے اِن ریمارکس نے ضرور محترمہ کو قبر میں بےچین کردیا ہوگا، اہل رائے کا درست تجزیہ ہے کہ موجودہ پیپلزپارٹی بھٹو اور بےنظیر کی پارٹی نہیں ہے بلکہ یہ زرداری اور بلاول کی پیپلزپارٹی ہے جس کا نظریہ ملک اور عوام نہیں بلکہ اِن کا نصب العین اقتدار اور صرف اقتدار ہے۔

محترمہ حیات ہوتیں تو وہ 2022ء میں چور دروازے سے اقتدار میں آنے کے بجائے نئے الیکشن کی طرف جاتیں، بلاول بھٹو کو جمعیت علمائے اسلام شکایت نہیں ہوتی کہ وہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی قیادت پر دھاندلی کا الزام کیوں لگاتے ہیں، بلاول بھٹو نے جمعیت علمائے اسلام سندھ کے رہنماؤں کو جھوٹا قرار دیا ہے جو سندھ میں دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف تحریک چلارہے ہیں، دیہی اور شہری سندھ میں الیکشن کے دوران اور بعد یں ہونے والی دھاندلی کا الزام اپوزیشن ہی نہیں عام آدمی بھی لگارہا ہے ہے۔

پیپلزپارٹی نے دیہی سندھ میں الیکشن چوری کیا اور شہری سندھ میں ایم کیوایم  نے اپنی روایت قائم رکھی، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اپنی جماعت کی نظریاتی سیاست کو باقی رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا آغاز سندھ سے کریں سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی اکثریتی جماعت ہے اُسے کسی بیساکھی کی ضرورت نہیں ہے وہ غریب عوام اور کسانوں کے ساتھ کھڑے ہوکر سندھی عوام کے دلوں میں جگہ بنا سکتے ہیں۔

دیہی سندھ میں خودکشیوں کی شرح شہری سندھ سے زیادہ ہے وہاں میڈیا کو رسائی حاصل نہیں ہے کہ وہ حقیقت احوال آگاہ کرسکیں اندرون سندھ صحافیوں کو قتل کروایا گیا اور تشدد تو روز کا معمول ہے، صحافتی تنظیموں کو شکایات ملتی رہی ہیں اور اب تو اسکی بازگشت عالمی سطح پر ہونے لگی ہے، سندھ میں امن و امان کی صورتحال تشویشناک ہے دیہی سندھ میں ڈاکوؤں اور شہری سندھ میں اسٹریٹ کریمنلز کا راج ہے، بلاول بھٹو اس جانب توجہ مبذول کریں، کراچی میں تو پولیس اہلکار بھی اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہیں، انہیں پیپلزپارٹی کے 15 سالہ دور میں بھرتی کیا گیا تھا، کیا بلاول بھٹو اس کا جواب دے سکتے ہیں؟

نوٹ: جی ٹی وی نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top