جمعرات، 19-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

مقبول خبریں

سپریم کورٹ نے الیکشن التوا کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، کل سنایا جائیگا

03 اپریل, 2023 16:01

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کی تاریخ سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کی تاریخ سے متعلق سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے انتخابات کے دوران سکیورٹی فورسز کی تعیناتی سے متعلق ریمارکس دیے کہ ہم صرف فوج کی بات نہیں کر رہے، مسلح افواج میں ائیر فورس، نیوی بھی شامل ہیں، اگر ہماری فوج حساس جگہوں پر تعینات ہے تو ہمیں ان دو کے بارے میں بھی بتایا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرمڈ فورسز میں نیوی اور فضائیہ بھی شامل ہیں، اگر پاک آرمی کی نفری مصروف ہے تو دیگر سروسز سے اہلکار لیے جا سکتے ہیں، نیوی سمیت دیگر فورسز سکیورٹی کے لیے لی جا سکتی ہیں جو حالت جنگ میں نہ ہوں۔

چیف جسٹس نے سیکرٹری دفاع سے پوچھا کہ ویسے بتا دیں کہ الیکشن کے لیے کتنی سکیورٹی چاہیے؟ جو کچھ حساس چیزیں ہیں ان کو ان چیمبر سن لیں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے سیکرٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ حمود الزمان نے استفسار کیا کہ کیا پنجاب میں سکیورٹی صورتحال سنگین ہے؟ جس پر سیکرٹری دفاع نے کہا کہ پنجاب میں سکیورٹی سے متعلق ان چیمبر بریفنگ دیں گے، ہم نے عدالت میں کچھ بولا تو دشمن معلومات لیک کر سکتا ہے، کچھ حساس معلومات ہیں جو چیمبر میں بتائیں گے۔

وکیل تحریک انصاف علی ظفر نے کہا کہ میری رائے میں ابھی سکیورٹی کا معاملہ چھوڑ دینا چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ انتحابات کے لیے سکیورٹی کون دے گا؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کے روز دیگر فورسز سے سکیورٹی لی جا سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ حکومت کو یہ اعتماد کیسے ہے کہ 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ چکا کہ سکیورٹی اور فنڈ ملیں تو الیکشن کے لیے تیار ہیں، ریٹائرڈ آرمی کے جوان بھی سکیورٹی کے لیے لیے جا سکتے۔

چیف جسٹس نے سیکرٹری دفاع سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کے پاس ریٹائرڈ جوان بلانے کا کوئی طریقہ کار ہے؟ جس پر سیکرٹری دفاع نے کہا کہ ریٹائرڈ آرمی جوان ریزرو فورس ہوتی ہے جنہیں مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری دفاع صاحب کیا آپ سربمہر کچھ فائلیں لائے ہیں؟ جس پر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمود الزمان خان نے بتایا کہ ابھی نہیں لایا، عدالت کو پیش کردوں گا۔

یہ بھی پڑھیں: سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا : چیف جسٹس

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں سربمہر فائلیں دے دیں، ہم جائزہ لےکر واپس کر دیں گے، سیکرٹری دفاع کو اگلی سماعت پر آنے کی ضرورت نہیں، کچھ سوالات ہمارے ذہن میں آئے تو کھلی عدالت میں پوچھ لیں گے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہم اپنی افواج کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے، حساس آپریشن ہوتے ہیں، ہم کوئی معلومات لیک نہیں ہونے دیں گے، سیکرٹری دفاع نے کہا کہ تفصیلی بریفنگ عدالت کو ان چیمبر دیں گے، تفصیلی رپورٹ بھی عدالت کو چیمبر میں پیش کریں گے۔

وکیل تحریک انصاف علی ظفر نے کہا کہ موجودہ حالات میں کسی قسم کی سنگینی نہیں ہے، الیکشن کے لیے زیادہ سکیورٹی کی ضرورت نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن میں ڈیوٹی کے لیے جنگجو فوجی نہیں چاہئیں، ریٹائرڈ آرمی جوان بھی سکیورٹی دے سکتے ہیں، پیرا ملٹری فورسز بھی سکیورٹی دے سکتی ہیں جو وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ ملک میں جمعے کے اجتماع میں بھی سکیورٹی دی جاتی ہے، حالات اتنے خراب نہیں ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کافی عرصے سے ملک میں حالات خراب ہیں، جھنگ کبھی حساس ہوتا تھا، اب نہیں ہے، جنوبی پنجاب اورکچے کے علاقے بھی حساس ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیکرٹری دفاع حساس معلومات شیئر نہ کریں، زبانی معلومات کے بجائے تحریری جواب دے دیں، جس پر سیکرٹری دفاع نے کل تک جواب جمع کرانے کی مہلت مانگ لی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چند گھنٹوں بعد یا کل صبح تک رپورٹ دے دیں۔

سپریم کورٹ میں الیکشن التوا کیس میں وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔

آپ کتنی دیر دلائل دینگے، چیف جسٹس کا الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ ہوا، جس پر وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نے کہا کہ میں کوشش کرونگا 30 منٹ میں اپنی بات مکمل کرلوں، اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بینچ سے الگ ہوجاتے ہیں، ایک طرف ایک جماعت دوسری طرف تمام جماعتیں ہیں، بینچ سے جانبداری منسوب کی جارہی ہے، پوری پی ڈی ایم ماضی میں بھی فل کورٹ کا مطالبہ کرچکی ہے۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ 3 رکنی بینچ کے بارے میں سوشل میڈیا پر باتیں آئیں کیا وہ سچ تھیں یا نہیں؟، آپ نے کہہ دیا ہے فل کورٹ بنانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا، متعصبانہ ہونے کی باتیں بڑے اسکیل پر ہورہی ہیں، 9 میں سے 4 ججز نے درخواستیں خارج کیں، 3 ججز نے حکم جاری کیا، یکم مارچ کا عدالتی حکم اقلیتی نوٹ تھا، عدالت اس تنازع کو حل کرنے کیلئے اقدامات کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ فیصلے کے تناسب کا تنازع ججز کا اندرونی معاملہ نہیں، درخواستیں خارج کرنے والے چاروں ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے، سرکلر سے عدالتی فیصلے کا اثر ذائل نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس اپنے سرکلر پر خود جج نہیں بن سکتے، عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا لازمی ہے، ایک گروپ کے بنیادی حقوق پر اکثریت کے حقوق کو ترجیح دینی چاہیے۔

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹس میں مقدمات کی سماعت روکنا آئین کے مطابق نہیں، خیبر پختونخوا میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دے دی ہے، پنجاب میں صدر کو تاریخ دینے کا حکم قانون کے مطابق نہیں، صدر آزادانہ طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے مجاذ نہیں، صدر کو تاریخ دینے کا حکم دینا خلاف آئین ہے، صدر ہر کام میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار صرف عام انتخابات کیلئے ہے۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں عام انتخابات ایک ساتھ ہی ہونے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے نے 184/3 کے مقدمات پر سماعت سے روکا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل ریکارڈ سے دکھائیں جسٹس اعجاز الاحسن کب بینچ سے الگ ہوئے؟، جس پر عرفان قادر نے کہا کہ ایک جج صاحب نے نوٹ میں لکھا جسٹس اعجاز الاحسن نے معذرت کی، چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ بینچ سے الگ نہیں ہوئے تھے 2 ججز کے نوٹ کے خلاف ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کے حکم نامے ریکارڈ کا حصہ ہیں، بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا یہ قانون کا اصول ہے، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہر مرتبہ ججز کی معذرت کرنے کا آرڈر نہیں ہوتا، کئی مرتبہ 3 ججز اٹھ کر جاتے تھے اور 2 ججز واپس آتے تھے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ اس طرح کی تجویز عدالت کو کبھی نہ دیں، جس پر عرفان قادر نے کہا کہ آپ نے عزت سے اپنا دور گزارا ہے، ون مین شو کس کو کہا گیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کے دلائل مکمل ہوئے، جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے پوچھا تھا ون مین شو کس کو کہا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا عمومی بات کی آپ کو نہیں کہا تھا، ماحول پورے ملک کی طرح عدالت اور باہر خراب ہے، ماحول ٹھنڈا کرنے میں اٹارنی جنرل نے مدد نہیں کی، یہ ایشو پارلیمنٹ کو خود حل کرنا چاہیے تھا، آپ کے دلائل سے محظوظ ہوئے ہیں۔

وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر کوئی کام نہیں کر سکتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین اور قانون واضح ہے انتخابات کی تاریخ کون دے گا، عرفان قادر نے کہا صدر حکومت کی سفارش کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا، کیا صدر الیکشن کی تاریخ ایڈوائس کے بغیر دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیل نے کہا کہ عدالت آئین اور قانون کے مطابق انصاف کے لیے بیٹھی ہے، سیاسی مقدمات میں سیاسی ایجنڈا سامنے آتا ہے، اکرم شیخ تیاری سے آئے تھے انکے موکل نے ان کو بولنے نہیں دیا، اکرم شیخ کے موکل کو نظر انداز نہیں کر سکتے، اٹارنی جنرل نے اس نقطے پر گفتگو نہیں کی، اس نقطے پر اپنے تحریری دلائل جمع کرائیں۔

علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنے طور پر انتخابات کی تاریخ تبدیل نہیں کر سکتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا، عدالت نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے، حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی، حکومت نے الیکشن کر انے کی آمادگی ہی نہیں ظاہر کی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ماضی میں عدالت اسمبلی کی تحلیل کالعدم قرار دے چکی ہے، ماضی میں حالات مختلف تھے، ملک میں کوئی سیاسی مذاکرات نہیں ہو رہے، رکاوٹوں سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی۔

چیف جسٹس نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ کل سنایا جائے گا۔

 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top