جمعرات، 19-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

مارچ سے پہلے مارچ

14 دسمبر, 2020 17:09

پی ڈی ایم تحریک کا آخری جلسہ لاہور میں آخر کار انجام پذیر ہوگیا ۔ لاہور کے ٹھنڈے موسم کے باوجود اس جلسے نے ماحول کو گرم بنائے رکھا ۔ جلسہ تھا تو ایک دن کا مگر حکومت نے اس کو کئی دن کا بنادیا تھا۔ جلسہ روکنے کے لئے حکومت نے کافی غائبانہ جتن کئے مگر ناکام ہوگئے ۔

شرکاء جلسہ کی تعداد کتنی تھی یہ سوال اب شاید اتنا معنی نہیں رکھتا مگر سوال تو ہے، پی ڈی ایم ترجمان کے مطابق لاکھوں لوگ لاہور جلسے میں شریک تھے اورحکومت کے مطابق چند ہزار لوگ تھے اور وہ بھی زبردستی اور لالچ دے کر لائے گئے تھے۔

خیر ان دونوں باتوں میں کچھ کچھ سچ مان لیا جائے تو تعداد پچاس ہزار ،لاکھ تو بنتی ہے تو یہ تعداد کسی صورت کم نہیں۔ بہرحال پی ڈی ایم تحریک کے پہلے سلسلے کا آخری شو ہوگیا اور اعلان ہوگیا لانگ مارچ کا وہ بھی مارچ سے پہلے۔یعنی جنوری یا فروری میں موسم کتنا ہی ٹھنڈا کیوں نہ ہوں سیاسی ماحول گرم ہی رہے گا۔

پی ڈی ایم نے لاہور جلسے میں اعلان کیا ہے کہ اب حکومت سے کسی بھی قسم کے ڈائیلاگ نہیں ہوں گے بلکے اب مارچ ہوگا اور وہ بھی جنوری یا فروری میں۔ سوال یہ ہے کہ لانگ مارچ کی نوبت کیوں آئی ؟ لانگ مارچ یعنی آخری آپشن، یعنی اب دوسرے، تیسرے ، چوتھے آپشن ختم ہوگئے یا پھر اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی خوش فہمی میں مبتلا ہوکر لانگ جمپ لگانے کی کوشش کررہے ہیں ۔

حکومت اپوزیشن کے بڑے بڑےجلسے سہہ توگئی مگر یہ حقیقت بھی ہے کہ ان جلسوں نے حکومت کومشکلات میں تو ڈال دیا ہے مگر وزیر اعظم کے ہینڈسم رویےنے اپوزیشن کو بھی سوچنے پر مجبور کردیاہے۔

ملک کے بڑے بڑے شہروں میں ہونے والوں بڑے بڑے جلسوں نے مقامی لوگوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہےاور جو کچھ نہیں سوچا تھا وہ حکومت کی مہنگائی سونامی نے سوچوا دیا بلکے حفظ کروادیا ہے۔

اب سیدھی سادھی عوام مرغی، انڈے ، چینی ، آٹا خریدتے وقت عمران خان کی کرپش لیس حکومت کو دل سے یاد کرتی ہے اور اسی یاد کا فائدہ اپوزیشن اتحاد اپنے آنے والے مارچ میں اٹھاسکتے ہیں اور اگر دل جلی عوام پوری طرح تپ گئی تو پھر حکومت ایسی بند گلی میں داخل ہوگی کہ جہاں سے نکلنا ناممکن ہوگا۔

خوش فہمی کے لمحوں میں فرض کرلیتے ہیں کہ لانگ مارچ ہوا اور ہزاروں ، لاکھوں لوگ اسلام آباد پہنچ گئے اور شدید سردی میں کئی دن تک احتجاج کیا ، حکومت نے اپوزیشن کو کھلی چھوٹ دے دی اور خاموشی سے نظارہ کرنے لگی اور پھر اپوزیشن نے تھک ہار کر واپسی کی راہ لے لی۔

یہ خوش فہمی والا فرض ممکن تو ہے مگر اسی صورت میں کہ اگر بیک ڈور کوئی معاملات چل رہیں ہوں۔لیکن حقیقت اور تازہ تازہ ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے فرض کرتے ہیں کہ اپوزیشن لانگ مارچ کا آغاز کریں اور عمران خان اپنی عادت سے مجبور ہوکر آغاز مارچ سے ہی اپوزیشن سے سخت رویہ رکھیں مگر اپوزیش جیسے تیسے اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد پہنچیں اور دھرنا دے دیں،

ایسے میں ہر گزرتا دن حکومت پر پریشر بڑھاتا رہے گا اور آخر کار حکومت اور اپوزیشن کا ٹکراؤ ہوجائے تو صورتحال کیا ہونگی ؟ اور اگر ٹکراؤ میں انسانی جانیں ضائع ہوگئی تو اس کا انجام کیا ہوگا؟

اور پھر اس انجام کے بعد جو کچھ ہونے کا خطرہ ہے وہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لئے ناقابل قبول ہوگا۔یہ فرض یقیناً ڈراؤنا اور تکلیف دہ ضرور ہے مگر ممکنات میں شامل ہے۔ اس سے پہلے کے دیر ہوجائے حکومت اور اپوزیشن ہوش کے تمام ناخن لے کیونکہ اگر اس بار دیر ہوگئی تو ناخن کترنے کے لئے بھی نہیں بچیں گے۔

 

نوٹ: جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top