جمعرات، 19-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

لڑکا ہوا تو انجیئنراور لڑکی ہوئی تو ڈاکٹر!

15 دسمبر, 2020 19:44

ہمارا معاشرہ طبقات کے لحاظ سے مختلف طبقات میں تقسیم ہے۔ پہلا نچلا طبقہ یعنی لوئر کلا س، اسی طرح متوسط طبقہ یعنی مڈل کلاس ،تیسرا طبقہ یعنی اعلی طبقہ مطلب اپرکلاس شامل ہے۔ لوئر اور اپر کلاس کے مقابلے میں مڈل کلاس طبقہ اکثریت میں ہے۔

ہر طبقے کو الگ الگ مسائل کا سامنا ہے۔ لیکن ایک مسئلہ ایسا ہے جو تقریباً ہر طبقے میں کسی نہ کسی صورت موجود ہے اور وہ ہے اپنے بچے کے مستقبل کے فیصلے میں زبردستی اپنے فیصلے صادر کرنا اور ان کے کریئر میں اپنی مرضی تھوپنا۔گھر میں جیسے ہی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے لئے مستقبل کا تعین کردیا جاتا ہے،

جیسے کے اگر بیٹی پیدا ہوئی تو ڈاکٹر کا لیبل لگادیا گیا اور اگر بیٹا پیدا ہوا انجینئر کا۔ ارے کچھ وقت گزرنے تو دو، مطلب بچے کو ابھی کچھ بڑا ہونے تودو ، بچے کی صلاحیتیں تو جان لو پھر فیصلہ کرنا کے بچے کے لئے کیا اچھا ہے۔

بلکے آپ کو فیصلہ کرنا نہیں ہے بلکے بچوں کو مفید مشورہ دینا ہے اُن کو راستے بتانے ہیں ۔ باقی فیصلہ کا اختیار بچے کو ہی دیں تاکہ وہ آذادی کے ساتھ اپنی دلچسپی کی فیلڈ کو چُن سکیں اور باحالت مجبوری نہیں بلکےباخوشی اپنے مستقبل کا تعین کرسکیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچے خود فیصلہ کب کریں گے کہ انھیں کس فیلڈ میں جانا ہے ؟ یہ زور زبردستی والا سلسلہ آخر کب تلک جاری رہے گا اوربچوں کی صلاحیتوں کو نظر انداز کرکےان پر کب تک زور زبردستی کی جائےگی؟
ان بچوں کو کب تک مشین بنانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔بچوں سے پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ جو پاپا کہے گا وہ کروں گا، ویسے تو مجھے فٹبالر بننا ہے پر میرے تایا کا بیٹا انجینئر ہے اس لئے پاپا نے کہا ہے کہ تم انجینئر بنو گے۔

کسی لڑکی سے پوچھو تو کہے گی ویسے تو مجھے فیشن ڈیزائنر بننا ہے پر مما مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتی ہیں اس وجہ سے میں اب ڈاکٹر بنوں گی۔ بس اسی کشمکش میں بچے جھولتے رہتے ہیں اور بچوں کی بڑی تعداد اپنی پسند سے نہیں بلکے والدین کی پسند سے اپنے مستقبل کی راہیں متعین کرتے ہیں جس پراکثر کو پوری زندگی ایک مشین کی صورت میں گزارنی پڑتی ہے۔ شاید اس سے وہ پیسے تو کمالیتے ہیں مگر سکون کھوسا جاتا ہے ۔

والدین کو یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ ہر دور کے بچے مختلف ہوتے ہیں وہ اپنے زمانے کے حساب سے چلتے ہیں ان پر زور زبردستی کرکے آپ خود تو اپنے مقاصد حاصل کرلیں گے مگر بچہ بے سکون رہے گا ۔ آپ اپنے سپنوں کی آڑ میں اپنے بچوں کے خوابوں کو روند رہے ہوتے ہیں

۔والدین یقیناً اپنے بچوں کے بارے میں مثبت ہی سوچیں گے مگر یہ بات یاد رکھیئےکہ والدین او ر بچوں کے زمانے میں بہت فرق ہے ۔سوچنے کا زاویہ اور پرکھنے کا انداز مختلف ہے۔ اپنے بچوں پر بھروسا کیجئے ان کو اڑنے کا موقع تو دیجیئے ۔ ایسا نہ ہو آپ اپنے بچے کےپر اڑُنے سے پہلے کاٹ دیں اوربچوں کی بلند پرواز اڑان سے پہلے ہی زمین بوس ہوجائے۔

 

نوٹ: جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top