جمعرات، 19-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

بحران سے بحران تک

19 دسمبر, 2020 17:03

پاکستان73 سال پہلے معرض وجود میں آیا۔ قائد اعظم نے اس ملک کو فلاحی ریاست بنانا چاہا تھامگر آج تلک یہ ریاست فلاحی نہ بن پائی۔ تکمیل پاکستان کے محض دو دہائیوں بعدپاکستان دو لخت ہوگیا یعنی سانحہ مشرقی پاکستان ۔

پاکستان کا ایک بازو کٹ گیا تھا۔پھر دوبارہ سے ملک کو کھڑا کرنے کی کوشش ہوئی جس میں وقتی کامیابی حاصل ہوئی۔ کسی بھی سسٹم کو چلانے کے لئے سافٹ وئیر اور ہارڈ وئیر کی ضرورت ہوتی ہے۔

جیسے نظام انسان میں سافٹ وئیر روح ہے اور ہارڈ وئیر جسم، اسی طرح ملک کے ادارے اس کا ہارڈوئیر ہوتے ہیں اور آئین اس کا سافٹ وئیر۔ 26 سال کے عرصے کے بعد آخر کارپاکستان کا آئین وجود میں آیا پر ادارے کمزور ہی رہ گئے۔

اللہ اللہ کرکے وقت گزرتا گیا مگر پاکستان میں سدھار نہ آپایا۔ دنیا جس طرح ترقی کررہی تھی پاکستان اُس کے برعکس تنزلی کا شکار تھا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

ان 73 سالوں میں پاکستان کا کوئی بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے اور اب تک عوام اس امید میں اپنی زندگی کے دن گزار رہے کہ شاید کسی دن ہم بھی آذادی کے ساتھ بنیادی ضروریات سے لطف اندوز ہوسکیں۔

بنیادی مطلب ضروریات زندگی ، خواہشات زندگی تو دور کی بات۔بنیادی ضروریات مطلب روٹی ، کپڑا ، مکان، اور بنیادی ضروریات کی سیکنڈری اقسام میں بجلی اور گیس بھی شامل ہے۔

روٹی یعنی د ووقت کی کہ تاکہ پیٹ کی آگ بجھاسکیں۔ کپڑا اس لئے کہ تن ڈھانپ سکیں زمانے کے موسم سے جسم کو محفوظ رکھ سکیں۔ مکان اس لئے کہ عزت کے ساتھ ایک چھت کے نیچے زندگی کی سختیاں گزارسکیں۔

یہ بنیادی چیزیں ہر انسان کی زندگی کی ضرورت ہے اور اگر حکمران اسے پورا نہیں کررہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ظلم کا شکار ہیں۔

 

یہ بھی پڑھیئے :انمول خزانے کے نادان رکھوالے

 

بحثیت قوم ہماری لاشعوری کا معیار ملاحظہ فرمائیں کہ برسوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکارسڑک اگر بن جائیں تو ہم حکمرانوں کی شان میں قصیدے پڑھنے لگتے ہیں ۔

لیکن معصوم عوام کو کون سمجھائیں کہ سڑک بنانا ان کی ذمہ داری ہے نہ کے ان کا کارنامہ، لیکن عوام تو واہ واہ میں مگن ہوجاتی ہے اور وہ بے غیرت حکمران مزید چند سالوں کے لئے ہم پر مسلط ہوجاتے ہیں۔

حکمرانوں کے دعوے کی مثال میٹھی چھری جیسی ہے جو آغازمیں میٹھی ہے مگر چھری کا کاٹنا ہی اس کا کاروبار زندگی ہے۔ہم بظاہر بہت سیانے بنتے ہیں مگر ہم جیسے بدھو کوئی نہیں جو خود بے وقوف بنتے ہیں۔

پاکستانی بھولی بھالی عوام کو دو طرح کے ظلم کا سامنا رہتا ہے ۔ ایک وہ ظلم جو خاموشی سےکیاجاتا ہے اور ایک وہ ظلم جو کھلم کھلا ہوتا ہے۔

کھلم کھلا ظلم یعنی دہشت گردی اور خاموش ظلم یعنی بنیادی ضروریات سے محرومی ۔ پہلے ظلم کے شکار لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہیں مگر دوسرے ظلم کا شکار لوگوں کی تعداد دسیوں کڑوڑ لوگ ہیں۔

کبھی آٹا کی لائن میں لگنا، کبھی چینی کے لئے خوار ہونا ، کبھی بجلی تو کبھی پانی، الغرض بے شمار طریقوں سے ظلم جاری وساری ہے۔ گرمی میں لوڈشیڈنگ کا عذاب سہنا ہمارا مقدر، سردیوں میں گیس لوڈشیدنگ کاعذاب سہنا ہمارا نصیب، بارش میں سڑکوں پر گھنٹوں خوار ہونا ہمارابخت ٹھہڑا۔

 

یہ بھی پڑھیئے : سردیوں کی ٹھنڈی مشکلات

 

پاکستانیوں کی زندگی دراصل ایک بحران سے دوسرے بحران تک کا سلسلہ ہے۔ بجلی بحران سے جان چھوٹتی ہے تو پانی بحران کا سلسلہ، پانی بحران سے سکون پاتے ہیں تو چینی بحران، چینی بحران سے آٹا بحران اور پھر آٹا بحران سے گیس بحران کی عفریت کا سامنا رہتا ہے۔

گویا بحران نامی ٹرین ہو جو تمام پاکستانیوں کو لے کر روانہ ہو اور ہر چند دنوں بعد وہ مختلف پلیٹ فارم پر رکتی ہو اور پلیٹ فارم کے نام آٹا ، بجلی ،گیس اور پانی ہو۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام کی بڑی آج تلک کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ وہ ملک کی ترقی میں تو شانہ بشانہ کھڑے ہیں مگر ان کی زندگی مسلسل تنزلی کا شکار ہیں۔

 

تحریر : مدثر مہدی

 

نوٹ: جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top