جمعرات، 19-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

جن کا کوئی ٹھکانہ نہیں

23 دسمبر, 2020 16:04

چند دن پہلے رات کے کوئی 2 بجے کے قریب ایک ضروری کام نمٹا کر گھر کی جانب جارہا تھا کہ ایک اندھیری سڑک سے گزر ہوا ، اچانک دو معصوم بچوں پر نظر پڑی جو کچرا کنڈی کے پاس بنے چبوترے پر بیٹھے تھے۔ قریب میں دو کچرا چننے والی بوریاں بھی پڑی تھی۔

دونوں بچوں کی عمر لگ بھگ 7،8 سال کے قریب ہوگی۔ ان میں سے ایک اسی چبوترے پرسورہا تھا اور دوسرا کچھ کام کی چیزیں کچرے سے الگ کررہا تھا۔ وہ کام کی چیزیں شاید کھانا ہوا یا پھر لوہے کی کوئی چیزجسے بیچ کر وہ پیسوں کا انتظام کرتے ہونگے۔

اچانک سے کچھ واقعات فوری طور پر ذہن میں آگئے جو آجکل ہمارے معاشرے میں بہت عام ہوگئے ہیں اور پھر یہ چھوٹے اور معصوم بچے تو اس ظلم کے سب سے سافٹ ٹارگٹ ہوتے ہونگے مگر کیا یہ بچے اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ اپنے اوپر کئے گئے مظالم روک سکیں یا کسی کوبتاسکیں۔

یعنی کہ جن کے ساتھ گھناؤنے واقعات ہوئے وہ تو گھروں میں یا اپنے علاقے میں موجود تھے جنھیں دن کی روشنی میں نشانہ بنایا گیا مگر یہ معصوم تو رات کی تاریکیوں میں تن تنہا موجود ہیں اور درندے بھی آس پاس موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: واٹس اپ برادری کی پھرتیاں

ہمارے ملک میں معصوم بچے ہی نہیں بلکے رات گئے بے شمار افراد سڑکوں پر موجود ہوتے ہیںجن کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ اندازے کے مطابق کراچی شہر کی سڑکوں اور چوارہوں پر دسیوں ہزاروں لوگ سوتے ہیں۔

گرین بیلٹ پر نشئیوں کا قبضہ ہوگیا ہے جہاں وہ نشے کرتے بھی ہیں اور بیچتے بھی ہیں۔ اکثر پلوں کے نیچے کچرا کنڈیاں بن گئی ہے جس پر کچرا چننے والوں گروہ اپنے شب و روز گزارتے ہیں۔

اسی طرح ہزاروں پلاٹ پر چھوٹے چھوٹے کیمپس اور جھونپڑیاں لگاکر اس پر بنیادی ضرورت سے محروم رہ کر ہزاروں لوگ زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ آوارہ کتوں بلیوں کا مسکن بھی وہ ہی مقام بن جاتا ہے۔ کھلےعام انسانوں کی تذلیل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ عجب حال ہے کہ جس کا کوئی پرُسان حال نہیں۔

یہ بھی پڑھیں :انمول خزانے کے نادان رکھوالے

نوجوان عمرافراد یا فیملی والےبے گھرلوگ تو کسی طرح اپنا گزر بسر ویران سڑکوں پر پڑاؤ ڈال کر کر ہی لیتے ہیں ۔مگر ایک طبقہ عمر کے اس حصے میں سڑکوں پر موجود ہوتا ہے کہ جب اسے آرام اور پیار کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

مگر جس آرام کے لئے وہ عمر بھر انتظار کرتے رہیں وہ اب بھی انتظار میں رہیں گے۔ سینکڑوں داستانیں میرے مشاہدے میں آئی اور مجھے نمدیدہ کرگئی۔دسمبر کی ٹھندی رات میں 80 سالہ بزرگ کو پھل بیچنے والی ٹھیلے پر سوتا دیکھیں تو کانپنا واجب ہوجاتا ہے۔

انھی راتوں میں انتہائی علیل اور بزرگ باپ بیٹی کو چورنگی پر کھڑا ہاتھ پھیلائیں دیکھیں گے تو تڑپنا فرض ٹھہرتا ہے مگر سوال تڑپنے اور کانپنے سے آگے کب بڑھے گا ؟ سوال تو بہت ہیں مگر جواب درکار ہیں جواب مل بھی جائیں تو عمل کہاں ؟

ان معصوم پر ہوئے ظلم کا ذمہ دار ریاست ہوگی ؟ اگر یہ بوڑھے شہری اس سڑک پر ٹھٹرتے ہوئے مرگئے تو ذمہ دار ریاست ہونگی ؟ ریاست آخر کب اپنی ذمہ داری کو سمجھے گی ؟ایسا نہ ہو کہ مزید دیر ہوجائے کیونکہ ہر گزرتا دن کتاب ریاست پر تحریر ہوتا ہے ، ایسا نہ ہو ورق رنگین تر ہوتے جائیں۔

تحریر : مدثر مہدی

نوٹ: جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top