پیر، 8-جولائی،2024
( 02 محرم 1446 )
پیر، 8-جولائی،2024

EN

باسکن روبنز پاکستان پر بھاری جرمانہ؛ مالیاتی اسکینڈل بے نقاب

04 جولائی, 2024 20:54

پنجاب ریونیو اتھارٹی نے پاکستان میں کام کرنے والی امریکی آئس کریم کمپنی باسکن روبنز پر ٹیکس چوری اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے الزامات میں 3 ارب روپے سے زائد کا بھاری جرمانہ عائد کر دیا۔

جی ٹی وی نیوز کی خصوصی رپورٹ کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) لاہور کے اینٹی منی لانڈرنگ یونٹ نے 10 ملین ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ اور حوالہ/ہنڈی کے الزامات کی تحقیقات کو وسعت دیتے ہوئے ابتدائی تحقیقات کے بعد کمپنی کے نامزد اہلکاروں کو نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔

ایف آئی اے لاہور کے ذرائع نے شکایت نمبر 222/2023 کی وصولی کی تصدیق کی ہے۔

اس مشترکہ کوشش میں حکومتی اداروں جیسے ایف بی آر پاکستان اور کسٹمز پاکستان کو بھی خطوط جاری کیے گئے ہیں، اور تمام بینکوں اور متعلقہ اداروں سے تفصیلات جمع کر لی گئی ہیں۔

ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شراز عمر کے مطابق تحقیقات فعال طور پر جاری ہیں، تاہم کسٹمز پاکستان کی جانب سے نامکمل جواب نے ایف آئی آر کی رجسٹریشن میں تاخیر کی ہے۔

ایف آئی اے لاہور کے ڈائریکٹر سرفراز ورک سے تبصرے کے لیے رابطہ کرنے کی کوششیں ناکام رہیں، جس نے اس کیس کی دلچسپی کو اور بڑھا دیا ہے۔

اس تحقیقات کا آغاز مقامی شہری عبدالقیوم حفیظ کی طرف سے دی گئی ایک جامع درخواست سے ہوا، جس میں سیکڑوں صفحات پر مشتمل دستاویزات شامل تھیں۔ حفیظ کے الزامات کے مطابق کمپنی 2017 سے پاکستان میں کام کر رہی ہے اور نہ صرف ٹیکس چوری بلکہ وسیع پیمانے پر منی لانڈرنگ میں بھی ملوث ہے۔

درخواست میں بین الاقوامی تحقیقات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، جو پاکستانی سفارت خانے کے ذریعے امریکی وزارت داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی درخواست پر کی جا رہی ہیں۔

یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دبئی کے ذریعے غیر قانونی طور پر 10 ملین ڈالر سے زائد رقم امریکہ منتقل کی گئی، جس کے ساتھ متعلقہ دستاویزات بھی شامل ہیں۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں باسکن روبنز فلیورز پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے رجسٹرڈ ہے، جس نے منی لانڈرنگ اور حوالہ/ہنڈی کے لیے باسکن روبنز آئس کریم کا استعمال کیا ہے۔

مزید برآں، دبئی میں رجسٹرڈ کمپنی انٹرلنک ٹریڈنگ کو بھی انڈر انوائسنگ اور ٹیکس چوری میں ملوث قرار دیا گیا ہے، جس سے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔
کمپنی کے چیئرمین عرفان مصطفیٰ اور سربراہ جبران مصطفیٰ نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کمپنی قانون کے مطابق کام کر رہی ہے اور یہ الزامات ایک ناراض ملازم نے لگائے ہیں، جن میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

انہوں نے پنجاب ریونیو اتھارٹی اور ایف آئی اے لاہور کی تحقیقات پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی قانونی ٹیم اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔

اس کے برعکس، درخواست گزار قیوم حفیظ اپنے موقف پر قائم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے درخواست کے ساتھ ناقابل تردید ثبوت فراہم کیے ہیں، لیکن اس کے باوجود ایف آئی اے لاہور ایف آئی آر درج نہیں کر رہا۔ حفیظ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور وزارت داخلہ کو بھی درخواست دی ہے، اور ایف آئی اے لاہور کے ڈائریکٹر سرفراز ورک پر الزام لگایا کہ وہ صورتحال سے آگاہ ہونے کے باوجود کارروائی نہیں کر رہے۔

حفیظ نے انصاف اور احتساب کے مطالبے کو اجاگر کرتے ہوئے قومی خزانے کو پہنچنے والے بھاری نقصان پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top