جمعرات، 19-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

‘بنگلہ دیش پر حسینہ واجد کو سول ڈکٹیٹر شپ لے ڈوبی’

06 اگست, 2024 19:22

بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمٰن کی سیاسی وارث شیخ حسینہ واجد کے آمرانہ انداز حکومت کے خاتمے کیساتھ ختم ہوجائے گی؟، یہ وہ سوال ہے جو بڑے بڑے ملکوں کے دارلحکومتوں میں کیا جارہا ہے، حسینہ واجد کے اکلوتے بیٹے سجیب وازید اس وقت امریکہ میں ہیں، جن پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں، سجیب وازید ایک آئی ٹی اور کمیونیکیشن اسپیشلسٹ ہیں اور بنگلہ دیش کی سیاست میں بھی فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

وازید ڈیجیٹل بنگلہ دیش کے منصوبے کے پیچھے اہم شخصیت ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں متعدد اقدامات کی قیادت کر رہے تھے اور انہی منصوبوں میں کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں، سائمہ وازید شیخ حسینہ کی بیٹی ہیں، وہ ایک ماہر نفسیات ہیں اور آٹزم اور نیوروڈیولپمنٹل ڈس آرڈرز کے حوالے سے کام کرتی ہیں، سائمہ وازید یونیسف کی ایمبیسیڈر بھی ہیں اور انہوں نے آٹزم کے بارے میں آگاہی بڑھانے اور اس کے علاج کے حوالے سے کئی اہم منصوبے شروع کیے ہیں تاہم وہ سیاست میں اپنے بھائی کی طرح زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی ہیں۔

مزید پڑھیں: پُرتشدد مظاہروں کے بعد ممبر پارلیمنٹ شکیب الحسن منظر عام سے غائب

شیخ حسینہ واجد کی حکمرانی کا خاتمہ افسوسناک حادثات اور یادوں کیساتھ ختم ہوچکا ہے، شیخ حسینہ واجد بہت خوش نصیب ہیں کہ اُن کا حشر بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن جیسا نہیں ہوا البتہ بنگلہ دیش کے طول و عرض میں شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسمے توڑے جارہے ہیں جو بنگلہ دیش نے بانی تھے مقبول ترین لیڈر سے آمرانہ انداز حکومت تک کا سفر حسینہ کی شخصیت کا وہ پہلو ہے، جسے بنگلہ دیش کی اندرونی اور بیرونی قوتوں نے بہت اچھی طرح استعمال کیا، حسینہ واجد اپنی تنزل پذیر سیاسی وراثت بچانے کیلئے چین گئیں لیکن اُنھوں نے دیر کردی تھی کیونکہ چین سوراخ زدہ کشتی میں سوار نہیں ہوتا، حسینہ واجد کی زرپرستی نے بہت جلد بنگلہ دیشی لوگوں کے دلوں میں محبت سے نفرت کا سفر طے کرادیا، چین بنگلہ دیش کا ایک اہم اقتصادی شراکت دار تھا دونوں ممالک نے بڑے پیمانے پر اقتصادی تعاون اور سرمایہ کاری کے معاہدے کیے تھے۔

بنگلہ دیش نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں شمولیت اختیار کی ہے، جس کے تحت مختلف بنیادی ڈھانچے کے منصوبے چل رہے ہیں، بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد جولائی 2024ء میں تین روزہ سرکاری دورے پر چین گئیں تھیں، رواں برس جنوری میں چوتھی مرتبہ مسلسل بنگلہ دیش کی وزیراعظم بننے کے بعد یہ ان کا دوسرا غیر ملکی دورہ تھا، وہ چین سے مالی مدد کی خواہاں تھیں تاکہ بنگلہ دیش کے سالانہ بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کیا جاسکے، چین، بنگلہ دیش کی مدد کر سکتا تھا مگر چین نے صرف 100 ملین ڈالر کی مدد کرنے کا وعدہ کیا جو توقعات سے بہت کم تھا، شیخ حسینہ واجد نے چین جاتے ہوئے جو منصوبہ بنایا تھا وہ حاصل نہیں ہو سکا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق چین سے اپنی خواہش کے مطابق مالی مدد نہ ملنے کی وجہ سے حسینہ واجد خوش نہیں تھیں، گذشتہ 15 برسوں میں چین نے بڑے منصوبوں کی تکمیل کے لئے بنگلہ دیش کو قرضہ یا فنڈز فراہم کیے ہیں، چین پدما برج اور کرناپھلی ٹنل جیسے منصوبے بنانے میں بھی بنگلہ دیش کی مدد کر چکا ہے اور اب بیجنگ آب پاشی کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے ڈیزائن کیے گئے ٹیسٹا منصوبے میں بھی دلچسپی لے رہا ہے، چین ان ممالک میں شامل ہے جنھوں نے بنگلہ دیش کو سب سے زیادہ قرضے دیئے۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت کی جانب سے پارلیمنٹ تحلیل کر دی گئی

چین نے گذشتہ چار برسوں میں بنگلہ دیش کو تین ارب ڈالر بطور قرض دیا تھا جبکہ چین بنگلہ دیش میں سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے لیکن حسینہ واجد کے مخدوش سیاسی مستقبل کی بناء پر جب بنگلہ عوام اُن کے خلاف سڑکوں پر ہے چین نے حسینہ واجد حکومت کیلئے اپنے اسٹیک کو خطرے میں نہیں ڈالا، اس تاثر کی بنیاد بنگلہ دیش کے سابق وزیرِ خارجہ توحید حسین کا بیان ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ چین کو بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کے دوہرے فواہد حاصل ہیں ایک طرف تو چین قرضے پر سود لے رہا ہے اور دوسری طرف یہ منصوبے چینی ٹھیکے داروں کو ملتے ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں چین کا اثر و رسوخ بھی بڑھ رہا ہے، چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ نے ہی بنگلہ دیش میں امریکی دلچسپی بڑھائی اور یہاں سے ہی حسینہ واجد کے سیاسی سفر کی کتاب کا اختتامی باب لکھا جانے لگا، چین کو ملکوں کی داخلی سیاست سے کوئی خاص لگاؤ نہیں بس اُس کے مالی اور اسٹرٹیجک مفادات محفوظ رہیں اور سود کی رقم اُسے ملتی رہے۔

ہندوستان کی موجودہ مذہبی شدت پسند حکومت نے حسینہ واجد کی سیکولر اور قوم پرست انتظامیہ کو خوب استعمال کیا اور بنگلہ دیش میں اسلام کی جڑیں اُکھاڑنے کی کوشش کی، جماعت اسلامی اور حسینہ واجد حکومت کے درمیان سیاسی اختلاف نہیں تھا بلکہ حسینہ واجد جماعت اسلامی سے انتقام لے رہی تھیں، حسینہ واجد جماعت اسلامی کو بنگلہ دیش میں ختم کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا تھیں،، جماعت اسلامی کے اکابرین جنکی عمریں 70 سال سے تجاوز کرگئیں تھیں انہیں بھی آزادی کی تحریک کا مخالف قرار دیکر پھانسی پر پڑھا دیا، جس نے حسینہ واجد کی سیاست کو آمرانہ رویہ اختیار کرنے کی جانب گامزن کیا۔

اِن کی آمرانہ ذہنیت اس ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن سے مختلف نہیں تھی انہیں ورثے میں ملی تھی جو اُن کے قتل کی وجہ بنی تھی، شیخ مجیب الرحمٰن ریاست کے اندر ریاست بنانے کے فلسفے کے مبلغ بن کر ابھر رہے تھے اور اپنے باپ کے نشان قدم پر چلتے ہوئے حسینہ واجد بھی اپنا سیاسی سفر ختم کرچکی ہیں، اس مرتبہ بنگلہ دیش کی فوج نے روایت کو بدل دیا اور انہیں 45 منٹ دیئے کہ وہ بنگلہ دیش چھوڑ دیں وہ فرار ہوکر مودی حکومت کی چھتر چھاؤ میں جاچکی ہیں، یہاں پاکستان پیپلزپارٹی کیلئے ایک سبق ہے وہ بھی سندھ میں ساری سیاسی آوازوں کو دبا کر صوبے کو آمرانہ انداز میں چلارہی ہے، ھسینہ واجد کے انجام کو آصف زرداری، بلاول اور فریال کیلئے سبق آموز ہونا چاہئے۔

حسینہ واجد کا دور حکومت ختم ہوگیا مگر عوامی لیگ کو وہ کرپشن کے الزامات کا ورثہ دیکر گئیں ہیں اُن پر خاندان، قریبی افراد اور بعض پارٹی رہنماؤں کو مالی فوائد پہنچانے کے سنگین الزامات ہیں، حسینہ واجد اور اُنکے بیٹے نے عوامی لیگ کو گھر کی لونڈی بنادیا تھا، ریاستی اداروں پر من پسند افراد کو مسلط کردیا جو اُن کی طاقت سے طاقت حاصل کرکے بنگلہ دیش کو فاشسٹ ریاست میں بدل رہے تھے، اس تبدیلی کے عمل کے دوران حسینہ واجد بھی بدل رہی تھیں وہ مقبول رہنما سے آمریت پسند بن چکیں تھیں۔

بنگلہ دہش کے آخری انتخابات پر امریکہ سمیت مغربی ملکوں نے اعتراضات کئے بنگلہ دیش کی بڑی سیاسی جماعت بی این بی نے اس انتخابات کا بائیکاٹ کردیا کیونکہ حسینہ واجد نے الیکشن کمیشن کو اپنے گھر کی لونڈی بنادیا تھا مگر وہ سمجھ نہیں سکیں کہ اُن کیساتھ ہونے کیا جارہا ہے، بنگلہ دیش  کی فوجی مقتدرہ اور نوکرشاہی نے واشنگٹن کی سیاسی دیوار پر لکھی تحریر پڑھ لی تھی، بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے ملک میں مخلوط حکومت کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج کرنے والے طلبہ کو گھر جانے کا مشورہ دیا ہے۔

دوسری جانب بنگلہ دیش کے مختلف ٹی وی چینلز وہ مناظر نشر کرتے رہے جن میں پرجوش نظر آنے والے مظاہرین ٹینکوں پر سوار ہو کر رقص کررہے تھے، یہ علامتی مناظر تھے عوام ملک کو جمہوریت کی طرف لانا چاہتے ہیں، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بندش تبدیلی نہیں روک سکی طاقت کے گھمنڈ میں عوام سے لڑنے والی سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کیلئے بنگلہ دیش کا انقلاب بہترین سبق ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top