جمعرات، 19-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

دختر مشرق بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد

26 دسمبر, 2020 19:56

جب جب پاکستان کےوزرائے اعظم کا نام لیا جائےگا تب تب دختر مشرق شہید بے نطیر بھٹو کا نام سنہرے حروف میں یادکیا جائے گا۔

 

21 جون، 1953ء کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے گھر میں ایک بیٹی نےانکھ کھولی۔ جس کا نام بے نظیر بھٹو رکھا گیا ۔ بھٹو خاندان سندھ کا مشہور سیاسی خاندان تھا ۔بے نظیر بھٹو نے ابتدئی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری اور کراچی کے جیزس اینڈ مری کانونٹ میں حاصل کی۔

مزید تعلیم کے لئےآپ امریکہ تشریف لے گئی ۔1973 میں ہارورڈ یونیورسٹی سے گریجوشن کرنے کے بعد انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں سے فلسفہ، سیاست اور معاشیات میں گریجویشن کی۔

بی بی نے دوران تعلیم آکسفورڈ یونیورسٹی کے انتخابات میں بھی حصہ لیا اور یونین کی صدر منتخب ہوئیں۔ اپنی پوسٹ گریجویٹ اسٹڈ یز مکمل کرنے کے بعد 1977 میں وہ وطن واپس لوٹ آئیں۔

1977ء کا زمانہ وہ تھا کہ جب پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کرآمر وقت ضیاء الحق نے مارشل لاءکا نفاذ کردیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو 14اپریل 1979کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور بھٹو کی سیاسی جانشین بے نظیر اور ان کی والدہ کو حراست میں لے لیا گیا ۔

بے نظیر نے 79سے 84ءتک مختلف اوقات میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی اور ۱۰ ماہ کی قید تنہائی بھی کاٹی ۔

1986ء میں بے نظیر خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے برطانیہ چلی گئیں اور پھر 1986میں پارٹی کی قیادت ملنے کے بعد لاہور واپس پہنچی جہاں ان کا فقید المثال عوامی استقبال کیاگیا ۔بے نظیر بھٹو 1987ء میں نواب شاہ کی اہم شخصیت حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی جِدوجُہد کا دامن نہیں چھوڑا اور اپنی سیاسی عمل کو جاری رکھا۔

17 اگست 1988ء کو آمر وقت ضیا ء الحق کی طیارہ حادثہ میں موت نے ملک میں ایک بار پھر جمہوریت کا راستہ ہموار کیا ۔ 16 نومبر، 1988ء میں ملک میں عام انتخابات ہوئے، جس میں قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں پیپلز پارٹی نے حاصل کیں۔ بے نظیر بھٹو نے دو دسمبر1988ء میں 35 سال کی عمر میں ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔

20 ماہ کی مختصر وقت میںبے نظیر کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا جس کے بعد 1990ء میں ضیاء الحق کی باقیات کو اقتدار پر بٹھا دیا گیاجن کا اقتدار بھی زیادہ عرصہ تک نہ چل سکا اور یوں 1993ء میں ایک بار پھر بے نظیر پاکستان کی وزیر اعظم بن گئیں لیکن غیر جمہوری قوتوں نے ان کے خلاف محاز گرم کئے رکھا۔محترمہ نے اپنے دور حکومت میں اپنے بھائی کی لاش کو خون میں لت پت دیکھا۔

بے نظیر بھٹو نے بچپن سے سیاست کو اپنے گھر میں دیکھا اور اسی لئے وہ عوامی سیاست کے رموز سےباخوبی آشنا تھیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کے جس علاقہ میں جاتی اپنے عوام دوست رویے سے وہاں کے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتی تھیں۔

بے نظیر بھٹو سے عوام کا عشق دیکھنے کے لائق تھا ۔اکتوبر 2007ء میں جب بے نظیر اپنی 10 سالہ جلا وطنی کاٹ کر پاکستان پہنچی تو کراچی میں ان کا والہانہ استقبال ہوا ۔

سندھ بھر سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنی محبوب قائد کا استقبال کرنے کراچی پہنچیں۔ استقبالی جلوس میں بے نظیر پر پہلا قاتلانہ حملہ ہوا جس میں خدا کے لطف و کرم سے محفوظ رہیں مگر اس دھماکے کے نتیجے میں ۱۰۰ سے زائد افراد شہید ہوئے جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ۔

بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے عوام کے لئے اپنی جان کی پرواہ بھی نہ کی اور اس دھماکے کے بعد بھی ا اپنےعزائم کا بھرپور اظہار عوامی طاقت کی شکل میں کیا۔ بے نظیر اس حملہ کے بعد گھر پر نہ رکیں انہیں نے پاکستان بھر میں دورے کئے اور عام لوگوں کی جمہوریت کے حوالے سے ذہن سازی کی۔

بی بی سیاسی عمل کے ذریعہ شعور پیدا کررہی تھیں اور دوسری جانے دشمن جمہور بی بی کو قتل کرنے کے لئے جال بچھارہا تھا۔

الیکشن مہم کے دوران وہ دن آیا کہ جب روالپنڈی کے لیاقت باغ میں بے نظیر کے جلسہ کا اعلان ہوا اور پنجاب بھر سے لوگوں کی بڑی تعداد نے اس جلسہ میں شرکت کی ۔ وہاں موجود لوگوں میں جوش و خروش دیدنی تھا ہر طرف زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ،

چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر کی صدائیں تھیں ۔ مگر وہاں کسی کو بھی یہ علم نہ تھا کہ یہ ان کی بے نظیر سے آخری ملاقات ہے ۔

27 دسمبر 2007ء کی شام لیاقت باغ میں ہونے والی نامعلوم دہشت گردی میں پاکستان اپنے عظیم لیڈر سے محروم ہو گیا ۔ بے نظیر جلسہ کے اختتام پر جیسے ہی باہر نکلیں تو عوام کا ایک جمِ غفیر تھا،

بی بی شہید اپنی گاڑی کے روف شیڈ سے سر باہر نکال کر اپنے چاہنے والوں کو ہاتھ ہلا رہی تھیں کہ ایک خودکش دھماکہ ہوا اور ساتھ گولیاں چلیں جس کے ساتھ ہر طرف بھگڈر مچ گئی ، ایک کہرام سامچ گیا ۔

چند لمحوں بعد پاکستانی میڈیا پر خبر جاری ہوئی کہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو روالپنڈی خودکش حملہ میں شہید ہو گئیں ۔ اس خبر کا جاری ہونا تھا کہ ملک میں ایک کہرام مچ گیا ، لوگ فرط غم سے نڈھال تھے کیونکہ ان کی محبوب قائد ان سے بچھڑ گئی تھی ۔

آج بے نظیر کو گزرے13 برس ہو چکے ہیں مگر ان کی یادیں آج بھی لوگوں دلوں میں تر و تازہ ہیں ۔

 

[simple-author-box]

>یہ بھی پڑھیں : پنکی سے بے نظیر تک

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top