جمعرات، 19-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

بلیو اکانومی۔۔۔ کیا اور پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

14 ستمبر, 2024 19:08

بلیو اکانومی ۔۔ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے میں ایک بہترین ذریعہ ہے۔ بلیو اکانومی ہے کیا ۔۔پہلے یہ جاننا ضروری ہے بلیو اکانومی سمندری اور ساحلی وسائل پر مبنی معیشت کو کہا جاتا ہے، جس میں سمندری تجارت، ماہی گیری، سمندری توانائی، سیاحت، اور ساحلی زراعت شامل ہیں۔ اس کا مقصد سمندری وسائل کو پائیدار طریقے سے استعمال کرکے اقتصادی ترقی کو فروغ دینا ہے، جس میں ماحولیاتی تحفظ بھی شامل ہے۔

پاکستان جیسے ملک کے لیے، جس کی لمبی ساحلی پٹی ہے، بلو اکانومی ملکی ترقی کا اہم ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے، خاص طور پر ماہی گیری، سیاحت، اور توانائی کے شعبوں میں معاون ہے ۔۔لیکن بد قسمتی سے ،ملک میں موثر میری ٹائم پالیسی نہ ہونے کے باعث ایک ہزار 46کلومیٹر طویل کوسٹل لائن اور بے پناہ سمندری وسائل ضائع ہو رہے ہیں جس کی بڑی وجہ حکومت کی عدم دلچسپی اور ترجیحات کا نہ ہونا ہے۔

دنیا کے وہ ممالک جن کے پاس سمندر ہیں انکی ملکی معشیت کی جی ڈی پی کا تین تہایئ حصہ بلیو اکانومی پر مشتمل ہے گزشتہ بیس سال کے اعدادو شمار کے مطابق بلیو اکنامی کے زریعے جی ڈی پی گروتھ مین چین پہلے نمبر پر 1266 فیصد، روس 466، بھارت 440، برازیل 316، سعودی عرب 300 فیصد، ترکی 250، آسٹریلیا 250 فیصد، ساؤتھ کوریا 220 فیصد، جنوبی افریقہ 200 فیصد، انڈونیشیا 175 فیصد، کینیڈا 166 فیصد، امریکہ 109 فیصد، برطانیہ 86 فیصد، جرمنی 77، فرانس 68، اٹلی 63، ارجنٹائن 33 اور پاکستان صرف 30 فیصد جی ڈی پی حاصل کر سکا۔

ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میری ٹائم اکنامک گروتھ میں باقی ممالک سے کتنا پیچھے ہیں پاکستان کی موثر میرین پالیسی نہ ہونے کے باعث اتنا اہم سیکٹر نظر انداز ہو رہا ہے ۔۔۔میرین پالیسی پارلیمنٹ کی اندھیر نگری میں دھکے کھا رہی ہے سمندر ہونے کے باوجود سمندری ریسورس زیر استعمال نہ لانے سے ملک کی معیشت میں۔ ایک خلا موجود ہے جس کو پورا کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔

سمندر کے ذریعے کی جانے والی ٹرانسپورٹ اور تجارت پر بحری بیڑوں اور جہازوں کا بھاری کرایہ بھی دینا پڑتا ہے۔بلیو اکانومی کو درپیش چیلنجز میں سب سے بنیادی چیز بلیو اکنامی کے تصور کو سمجھنے کا فقدان ،،کم۔منافع کے باعث بزنس کمیونٹی کے لیے پر کشش نہ ہونا ۔۔جدید ٹیکنالوجی کا فقدان عالمی جنگیں اور موسمیاتی تبدیلیاں وبائی امراض ،الودگی ،ساحلی کٹاؤ اور پائیدار ترقی کے اہداف ہیں ۔۔ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بلیو اکانمی سے متعلق اگاہی اور علم بہت ضروری ہے جس کے لیے اسے سکول کالجز کے نصاب میں شامل کرنا وقت کی ضرورت ہے پاکستان کا 1001 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی اور سمندری وسائل نہ صرف ماہی گیری، سیاحت، اور جہاز رانی بلکہ توانائی کے شعبے میں بھی ترقی کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔

اس میں آف شور ونڈ انرجی، تیل و گیس کے ذخائر اور سمندری حیات پر مبنی سی فوڈ انڈسٹری شامل ہیں،، پاکستان میں 529 اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں، جن میں 230 میٹھے پانی کی اور 296 سمندری مچھلیاں ہیں، جو ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اہمیت رکھتی ہیں۔۔جہاز سازی اور مرمت کی صنعت سے گوادر اور کراچی میں جہازوں کی مرمت اور نئی جہاز سازی کی صنعت کو فروغ دے کر ملک کو علاقائی مرمت کا مرکز بنایا جا سکتا ہے پاکستان کی ساحلی خوبصورتی اور میرین لائف کو عالمی سطح پر سیاحتی مقامات کے طور پر فروغ بھی دیا جا سکتا ہےسمندری توانائی کا موثر ذریعہ بھی بن سکتا ہے یعنی سمندر سے ونڈ انرجی اور سمندر کے نیچے موجود تیل و گیس کے ذخائر کا استعمال ملکی توانائی کے مسائل حل کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے ماہرین کے مطابق پاکستان کی معیشت میں بلیو اکنامی کا حصہ صرف 0.04 جی ڈی پی ہے۔

بلیو اکانومی سے 10 سال میں پاکستان 90 سے 100 بلین ڈالر کما سکتا ہے، بلیو اکانومی کے لئے ون ونڈو، عالمی معیار کی قانون سازی اور سمارٹ پورس قائم کرنا لازمی ہے صرف ایک فشنگ پر توجہ دینے سے ایک سال میں زرمبادلہ 416 ملین سے ایک ارب ڈالر تک لے جایا جا سکتا ہے۔

بلیو اکانومی پاکستان کی معاشی ترقی کا اہم جزو بن سکتی ہے، اگر مسائل اور چیلنجز پر قابو پاتے ہوئے موجودہ مواقع کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔بلیو اکنامی کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور فروغ کے لیے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میری ٹائمز افئیرز کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top