جمعرات، 19-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

بنگلہ دیش میں سنگین حالات خراب ہونے پر فوج نے کنٹرول سنبھال لیا

20 جولائی, 2024 09:51

بنگلہ دیشی حکومت نے مہلک جھڑپوں سے نمٹنے کیلئے جمعہ کے روز کرفیو کے نفاذ اور فوجی دستوں کی تعیناتی کا اعلان کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق پولیس کئی روز سے جاری بدامنی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے جہاں کم از کم 105 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر طالب علم ہیں۔

یہ طلبہ کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جس کے تحت سرکاری ملازمتوں کا 30 فیصد حصہ پاکستان کے خلاف 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں کے رشتہ داروں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رواں ہفتے طلبہ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 105 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔

خیال ہے کہ احتجاج اس وقت تک پرامن رہے گا جب تک حکمران جماعت عوامی لیگ کے اسٹوڈنٹ ونگ نے مظاہرین پر حملہ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ اس کے بعد سے پولیس سمیت سیکڑوں افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے پر کوٹہ ختم کرے۔

جمعے کے روز ڈھاکہ میڈیکل کالج اسپتال نے 52 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔

ہسپتال کے عملے کی جانب سے اے ایف پی کو دی گئی تفصیلات کے مطابق رواں ہفتے اب تک ہونے والی نصف سے زائد ہلاکتوں کی وجہ پولیس کی فائرنگ تھی۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا ہے کہ طالب علموں پر ہونے والے حملے ‘حیران کن اور ناقابل قبول’ ہیں۔

دریں اثناء شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی شیخ حسینہ واجد نے کوٹہ سسٹم کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق فوجیوں کو ان کی سیاسی وابستگی سے قطع نظر جنگ میں ان کی خدمات پر انتہائی احترام حاصل ہے۔

اس سے قبل انہوں نے کوٹہ سسٹم کی مخالفت کرنے والوں کو ‘رضاکار’ قرار دیا تھا، یہ اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جنہوں نے 1971 کی جنگ کے دوران مبینہ طور پر پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون کیا تھا۔

دریں اثنا انسانی حقوق کی تنظیموں نے پولیس پر الزام عائد کیا ہے کہ اس ہفتے یونیورسٹی کے ایک 25 سالہ طالب علم کے جسم پر گولیوں کے زخم پائے جانے کے بعد مظاہرین کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا گیا۔

بنگلہ دیش میں جمعے کے روز ہزاروں مظاہرین کی جانب سے سرکاری نشریاتی ادارے بی ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بولنے کے بعد زیادہ تر چینلز بند کر دیے گئے تھے۔

حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی حمایت یافتہ طلبہ نے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top