جمعرات، 19-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

یہ 1 دن کی جو خوشی ہے

13 اگست, 2018 21:50

تاریخ کے اس یادگار موڑ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے بھی کم کم رہ گئے ہیں

پاکستان رواں برس 71ویں سالگرہ منا رہا ہےآزادی حاصل کیے 7 دہائیاں گزر گئیںایسی شخصیات جنہوں نے پاکستان کو معرض وجود میں آتے دیکھا، جن کی آنکھوں میں ہجرت کے دوران انسانی وحشت کے لرزہ خیز مناظر بھی محفوظ ہیں
وطن حاصل کرنے کی خوشی میں نکلنے والے آنسو بھی۔ انہی لوگوں نے ہجرت کے بعد، پھر نوزائیدہ ملک کو اپنے قدموں پر کھڑے ہوتے ہوئے بھی دیکھا، سازشیں اور سانحات بھی دیکھے، بنتی ٹوٹتی تاریخ میں بدلتے ادوار اور کرداروں کو بھی دیکھا۔
یہ کمیاب لوگ پاکستان کی تاریخ کے گواہ اور مستقبل کے پیش بین بھی ہیں۔ انہی میں سے ایک انور مقصود ہیں، جنہوں نے 71ویں یومِ آزادی کے موقعے پر ہم سے خصوصی گفتگو کی اور قارئین کے لیے اپنا پیغام
ذاتی زندگی اور تخلیقی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کی خدمات کا احاطہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ قوموں کی تعمیر میں کس طرح عملی طور پر حصہ لیا جاتا ہے۔ انور مقصود کا پیغام تہہ در تہہ معنویت کا حامل ہے، جس میں وہ اپنی دل کے نہاں خانے میں پوشیدہ باتوں کو اب کے کچھ یوں اپنے لبوں تک لائے ہیں۔
انور مقصود ہے۔ 1948ء میں پاکستان آیا اور میری عمر 8 برس تھی۔ پاکستان کو بنے ہوئے 71 برس ہوگئے۔ 14 اگست آنے والی ہے، ہماری آزادی کا دن۔ 71 برس سے ہم 14 اگست کو آزاد ہو جاتے ہیں اور 15 اگست کی صبح پھر قید ہو جاتے ہیں۔ یہ 1 دن کی جو خوشی ہے، ہمارے لیے ہے تو بہت اچھی، فیض صاحب نے تو شروع میں ہی کہہ دیا تھا، 47 میں کہا تھا کہ ’وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں‘۔
’ہم 71 برس سے انتظار کر رہے ہیں، ایک صبح تو ایسی آئے کہ جب ہم صبح اٹھیں اور کھڑکی کھولیں تو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آئے، بچوں کو اسکول جاتے دیکھیں، ان کے گلوں میں بستے دیکھیں اور پھر ان کے واپس آنے کی پریشانی نہ ہو، مگر بہت وقت ہوگیا ہے۔ اب لوگ کہہ رہے ہیں، تبدیلی آئی ہے، یہ شور جو ہو رہا ہے، 14 اگست کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ کوئی نہ کوئی بات کر رہا ہے، کوئی چیزیں لگا رہا ہے، کوئی جھنڈے لگا رہا ہے، تو یہ آوازیں آپ کو آرہی ہیں۔ حالات بدل رہے ہیں۔
’روشنی، ہوا اور پانی پر کسی کی قید نہیں ہے، یہ ہر انسان کا حق ہے۔ 22 کروڑ کی آبادی کو ان تینوں چیزوں سے محروم نہیں رکھنا چاہیے۔ میں امید کرتا ہوں، میری عمر بہت ہے میں تو شاید نہ رہوں، مگر آنے والی نسلوں کے لیے تہذیب، تمیز، تعلیم، صحت بہت ضروری ہے۔ اس سال ہمیں 14 اگست کے لیے دعا کرنی چاہیے، میری نوجوان نسل میں بہت ٹیلنٹ ہے، وہ اقبال کے خواب کی تعبیر بھی پیش کریں گے اور قائد کی محنت کا صلہ بھی۔ پاکستان زندہ باد‘
وہ ڈرامہ نگار، خاکہ نویس، گیت نگار، میزبان اور مصور ہیں، سب سے بڑھ کر ایک دردمند دل رکھنے والے انسان ہیں۔ زندگی کو آگے بڑھانے کے لیے انہیں بہت محنت کرنی پڑی۔
ان کا خاندان 18 اکتوبر 1948ء کو ہجرت کرکے پاکستان پہنچا، اس وقت ان کی عمر صرف 8 برس تھی۔ ان کے بزرگوں کی نیک نامی اور شہرت کی وجہ سے حیدرآباد دکن کے حاکم نے اپنے کچھ محافظ ان کے ساتھ کردیے، جنہوں نے ان کے خاندان کو بمبئی تک بحفاظت پہنچا دیا۔ بمبئی سے ڈمرہ نامی پانی کے جہاز میں سوار ہوکر یہ خاندان کراچی پہنچا۔
وہ اپنی ہجرت اور اس کے بعد کی زندگی کے بارے میں کچھ یوں بتاتے ہیں ’میں عمر کے جس حصے میں ہوں، اس کے لیے ماضی بہت ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں ماضی زندہ رکھتا ہے اور اچھا ماضی تو کمال کی چیز وتا ہے۔
’ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ اس وقت زندگی میں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اچھا وقت بھی گزارا، ویسے بھی زندگی میں خوشی اور غم سے توازن رہتا ہے۔
’زندگی صرف پرسکون ہو تو وہ بھی کوئی بہت مزیدار بات نہیں ہے۔ اُتار چڑھاؤ زندگی کا حصہ ہیں، اس میں پیچ وخم تو آتے رہتے ہیں۔ ایک احساس نے ہمیشہ ستایا کہ اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم نے نہیں کیا‘۔
انہوں نے ایک نجی ٹیلی وژن کے پروگرام میں اپنے پرانے دنوں کی یادوں کا تذکرہ کچھ یوں کیا ‘اس زمانے میں، میں ٹائیاں اور رومال بنایا کرتا تھا اور بوہری بازار میں جا کر بیچتا تھا‘۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہم ہجرت کرکے پاکستان آئے تو بڑے بڑے گھر خالی پڑے تھے مگر ہمارے بڑوں نے کسی پر قبضہ نہیں کیا، زمین خریدی، ٹینٹ لگا کر رہے۔ کوئی بڑی خواہشات نہیں تھیں، تباہی تو وہاں آتی ہے، جہاں خواہشات بے پناہ ہوں، مگر پیدل سفر کیا۔
انور مقصود کے آباؤ اجداد کے حوالے سے فاطمہ ثریا بجیا پر سید عفت حسن رضوی کی لکھی ہوئی کتاب ’بجیا‘ میں تفصیلات ملتی ہیں، جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے، ’دادا قاضی مقصود حسین حمیدی پیشے کے لحاظ سے سرکاری ملازم تھے، انگریز حکومت کے دور میں ان کی انتظامی کارکردگی کے باعث ’خاں صاحب‘ کا خطاب ملا تھا۔ ان کا شمار بدایوں کی معروف شخصیات میں ہوتا تھا۔
’صدیوں پہلے سلطان التمش کے دور میں ان کے جد امجد قاضی حمیدالدین گنوری بدایوں آئے۔ والد قمر مقصود حمیدی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی میں گریجویشن کیا تھا۔ والدہ کا نام افسر خاتون تھا، جو اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں۔ وہ اردو اور فارسی کی نثرنگار اور شاعرہ بھی تھیں۔
’ہندوستان میں رہائش کے زمانے میں، نانا کی طرف سے سجائے جانے والی موسیقی کی محفلیں بھی یادگار ہوا کرتی تھیں، جن میں ددن بائی، وملا بائی، سرسوتی بائی، ماسٹر رؤف اور الہ آباد کی نسیم اور نصیر جیسے فنکار شامل ہوتے تھے۔ نانا کا نام سید نثار احمد تھا۔ وہ 35 برس حیدرآباد دکن کی ریاست میں اول تعلقہ دار چیف کمشنر رہے، ان کی سرکاری خدمات کے نتیجے میں نواب کا خطاب بھی دیا گیا، وہ بھی شاعر تھے اور ان کا تخلص ’مزاج‘ تھا۔ وہ داغ دہلوی کے شاگرد تھے‘۔
نور مقصود سمیت 10 بہن بھائیوں میں سب سے بڑی فاطمہ ثریا بجیا تھیں، جن کا شمار پاکستان کے نامور ڈرامہ نگاروں میں رہا۔
خاندان بہت بڑا تھا، ان کے ساتھ زندگی بہت عمدہ گزری۔ اب تو اپنے بچوں کی اولاد کے لیے دل زیادہ دھڑکتا ہے۔ میں نے لکھنا اپنی بڑی بہن بجیا سے سیکھا، جو ہماری مدر ٹریسا تھیں۔ میں آج بھی محسوس کرتا ہوں، وہ اور میں ساتھ ساتھ ہیں‘۔
فاطمہ ثریا بجیا نے انور مقصود کے لیے ایک موقعے پر کہا تھا کہ ’وہ اب کسی تعارف کے محتاج نہیں، وہ ہمہ جہت شخصیت ہیں جنہوں نے ہر میدان میں اپنی اچھوتی پہچان بنائی‘۔ ان کی بہن زبیدہ طارق کا کہنا تھا کہ ’انور بھائی پورے خاندان کے لیے ایک ایسا کردار ہیں جو ہر دکھ کو اپنی باتوں سے کچھ دیر کے لیے بھلا دیتا ہے’۔
ان کی بیگم عمرانہ مقصود نے ان کی زندگی کے بارے میں اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’الجھے سلجھے انور‘ لکھی، جس میں وہ کچھ یوں رقم طراز ہیں، ’میرا اور انور کا ساتھ ماشاءاللہ خوب مزے سے گزرا اور گزر رہا ہے، اونچ نیچ ہر رشتے میں آتی ہے یہی پہچان ہے کہ ہم زندہ ہیں‘۔
معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین ان کے لیے کہتی ہیں کہ انہوں نے تو دنیا میں آنے سے پہلے ہی شاید جینا سیکھ لیا تھا۔ انہیں زندگی کو برتنا خوب آتا ہے‘۔
ان کی زندگی کتنی کٹھن رہی اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ بقول عمرانہ مقصود انہوں نے بہت ساری پینٹگز بنائیں، ان کی نمائش ہوئی، اس سے جو رقم جمع ہوئی، وہ حمید ہارون نے انور کو دینے کے بجائے مجھے دی تاکہ اس سے معاشی حالات بہتر ہوسکیں۔ مہینے کے آخر میں اگر گھی، تیل، چینی، ختم ہوجائے تو منگوانا ناممکن سا لگتا تھا، بچوں کی معصوم خواہشات بہت بڑی بڑی لگتی تھیں‘۔
ابھی انور مقصود کا لکھا ہوا اسٹیج ڈرامہ ’کیوں نکالا‘ اسٹیج ہونے جا رہا ہے، جبکہ اس سے پہلے دھرنا اور دیگر ڈرامے بھی اسٹیج ہوچکے ہیں۔ تھیٹر کی دنیا میں انور مقصود نے ایک نئے پہلو سے توانائی منتقل کی ہے جس کا جادو ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ مختلف شاعروں اور ادیبوں کے نام ان کے لکھے ہوئے خطوط کی سیریز بھی بہت مقبول ہو رہی ہے۔
اس موقع پر یہ کہنا ہرگز غلط نہیں ہوگا کہ موجودہ انور مقصود اپنی تخلیقی زندگی کے بلند ترین مقام پر کھڑے ہوئے ہیں۔
رواں برس 71واں یوم آزادی منایا جا رہا ہے، اس دن ہم ماضی کی تلخ وشیریں یادوں کو دہراتے ہیں مگر اس بار ہم نے سوچا کیوں نہ اس موقعے پر کسی ایسی اہم شخصیت کو اس کی زندگی ہی میں خراج تحسین پیش کیا جائے جس نے اس ملک کو بنتے اور بکھرتے دیکھا۔
اب وہ پھر ایک امید لیے مستقبل کی طرف دیکھ رہا ہے، وہ کہتا ہے، میں شاید اس وقت تک نہ رہوں مگر یہ ملک قائم و دائم رہے گا۔ اقبال کے خواب کی تعبیر اور جناح کی محنت کا صلہ ضرور دے گا۔ ہم آج سب اس شخص کی خدمات کا عملی طور پر اعتراف کرتے ہیں جس نے اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالا۔

پاکستان زندہ باد!

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top