ہفتہ، 22-مارچ،2025
ہفتہ 1446/09/22هـ (22-03-2025م)

طالبان امریکا مذاکرات کا خاتمہ افغانستان کو مہنگا پڑگیا، بم دھماکوں اور حملوں میں تیزی

19 ستمبر, 2019 12:53

کابل : طالبان امریکا مذاکرات کے خاتمے کے بعد افغانستان میں بم دھماکوں اور حملوں میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

افغان جنگ کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بارہ دنوں میں بم دھماکوں اور طالبان کے حملوں میں ہلاکتیں ایک ہزار سے زائد ہوگئی ہیں۔

صرف تین دنوں میں چھ سے زائد دھماکوں میں دو سو سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : افغانستان میں کار بم دھماکہ، 10 ہلاک، 50 زخمی

سات ستمبر کو امریکی صدر ٹرمپ نے اچانک طالبان امریکا مذاکرات ختم کردیئے تھے۔ افغان طالبان نے ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ مذاکرات اور جنگ ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں ہیں۔ طالبان کو افغان حکومت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ بنیادی شرط تسلیم کئے بغیر مذاکرات بحال نہیں کئے جاسکتے ہیں۔

طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ جنگ کے لئے تیار ہیں۔ افغان مسئلے کے صرف دو فریق ہیں۔ بیرونی جارح قوتوں کے انخلاء کے بعد افغان گروپوں سے بات چیت ہوسکتی ہے۔

ایک خصوصی انٹرویو میں طالبان کے مرکزی مذاکرت کار شیر محمد عباس ستانکزئی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ مذاکرات ’افغانستان میں امن کے لیے واحد راستہ‘ہیں۔

ان کا کہنا تھا ‘انھوں نے ہزاروں طالبان کو ہلاک کیا ہے لیکن اگر کسی ایک امریکی فوجی کی بھی ہلاکت ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایسا ردعمل ظاہر کریں کیونکہ دونوں طرف سے کوئی جنگ بندی نہیں کی گئی۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘مذاکرت کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں ‘ہم امید کرتے ہیں کہ دوسرا فریق بھی مذاکرات سے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گا۔’

معاہدے میں فوجیوں کے انخلا کے بدلے میں طالبان یہ عہد کرنے پر راضی تھے کہ افغانستان کو آئندہ کبھی بھی کسی غیر ملکی دہشت گردی کے اڈے کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔

سنہ2001 کے مقابلے میں اس وقت طالبان زیادہ علاقوں پر قابض ہیں اور وہ صدر اشرف غنی کی انتظامیہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ جب تک امریکہ کسی معاہدے پر اتفاق نہیں کرتا، افغان حکومت کے ساتھ براہِ راست بات چیت نہیں ہوگی۔

ستانکزئی کا کہنا تھا کہ معاہدہ طے پا جانے کی صورت میں افغانیوں کے مابین مذاکرات 23 ستمبر کو شروع ہونے تھے اور وسیع تر جنگ بندی بھی ان مذاکرات کا حصہ تھی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top