مقبول خبریں
مقبوضہ کشمیر : کرفیو اور لاک ڈاؤن تینتالیسویں روز میں داخل

سری نگر : مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فورسز کا ظلم و جبر جاری ہے۔ کرفیو اور لاک ڈاؤن تینتالیسویں روز میں داخل ہوچکا ہے۔ قابض فوجیوں نے مزید تین کشمیریوں کو شہید کر دیا۔ گلیوں اور سڑکوں پر بھارتی فوج کا گشت جاری ہے۔
کشمیر تاریخ کی بدترین جیل میں تبدیل ہوگیا ہے۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی کچلنے کے لیے مودی حکومت ظلم کے ہر ہتھکنڈے پر آمادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں : مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار
تینتالیسویں روز میں داخل ہونے والے لاک ڈاؤن کے باعث مقبوضہ وادی میں بچوں کے دودھ، ادویہ اور اشیائے خورونوش کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ ٹیلیفون، موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی مسلسل بند ہیں۔
غاصب بھارتی فوج کی جانب سے اب تک چالیس ہزارسے زائد کشمیریوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ تمام تر بندشوں کے باوجود بھارتی فورسز کشمیریوں کا جذبہ آزادی نہ دبا سکیں ہیں۔ بھارت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
بھارتی فوج نے دو نوجوانوں کو ضلع کٹھوعا میں ایک جعلی مقابلے میں شہید کردیا۔ ایک نوجوان کو دوران حراست شہید کیا گیا، جس کی شناخت اخلاق احمد خان کے نام سے ہوئی۔
خیال رہے کہ بھارت نے 5 اگست کے فیصلے کے تناظر میں مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوج تعینات کردی تھی، جہاں پہلے ہی 5 لاکھ بھارتی فوجی اہلکار موجود تھے۔
خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا، جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔
بھارتی آئین کی دفعہ 35 ‘اے’ کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔
بھارت کو اس اقدام کے بعد نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ خود بھارتی سیاست دانوں اور اپوزیشن جماعت کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
یہی نہیں بلکہ بھارت نے 5 اگست کے اقدام سے کچھ گھنٹوں قبل ہی مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاؤن اور کرفیو لگا دیا تھا جبکہ مواصلاتی نظام بھی منقطع کردیے تھے جو ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال معطل ہیں۔
ادھر برطانوی خبررساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارتی حکومت نے 6 ستمبر کو اعداد و شمار جاری کیے تھے جن کے مطابق 3 ہزار800 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا تاہم اس میں 2 ہزار 600 افراد رہا کردیے گئے۔
خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے 2 سابق وزرائے اعلیٰ سمیت 200 سیاستدان گرفتار ہیں، جس میں 100 سے زائد سیاستدانوں کا تعلق بھارت مخالف جماعتوں سے ہے۔
اس حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ یہ کریک ڈاؤن مقبوضہ وادی کی حالیہ تاریخ کی ’واضح اور بے مثال‘ کارروائی ہے اور ان گرفتاریوں سے بڑے پیمانے پر خوف ہراس پھیلا ہے۔