مقبول خبریں
مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے باوجود 722 احتجاجی مظاہرے ہوئے

سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 6 ہفتوں سے کرفیو اور لاک ڈاؤن کے باوجود بھارتی حکومت کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 20 احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔
سینئر حکومتی ذرائع کے مطابق گزشتہ ماہ نئی دہلی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی دہائیوں پرانی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے پر متنازع ہمالیائی خطے میں اب بھی سخت کشیدگی ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن نقل و حرکت پر پابندی، انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز کی بندش کے باوجود بھارتی حکومت کے خلاف مسلسل عوامی مظاہرے ہورہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ مظاہرے کشمیر کے سب سے بڑے شہر سری نگر میں ہوئے جس کے بعد ضلع بارامولا اور پلوامہ احتجاجی مظاہروں کا مرکز بنا رہا، حکام کے مطابق 5 اگست سے لے کر اب تک 722 مظاہرے ہوچکے ہیں۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت سے اب تک تقریباً 200 شہری اور 415 سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوچکے، جس میں سے 95 شہری گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران زخمی ہوئے۔
اس ضمن میں بھارتی حکام کا اصرار ہے کہ جھڑپوں کے واقعات انتہائی کم ہیں اور کرفیو کے آغاز سے اب تک صرف 5 شہری جاں بحق ہوئے، جن میں سے 4 افراد کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی موت کی ذمہ دارسیکیورٹی فورسز ہیں۔
اس سلسلے میں پولیس نے بیان دیا کہ 3 افراد کو عسکریت پسند تنظیموں سے تعلق کے شبے میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب وہ اسلحہ منتقل کررہے تھے۔
خیال رہے کہ بھارت نے 5 اگست کے فیصلے کے تناظر میں مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوج تعینات کردی تھی جہاں پہلے ہی 5 لاکھ بھارتی فوجی اہلکار موجود تھے۔
خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا، جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔
بھارتی آئین کی دفعہ 35 ‘اے’ کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔
بھارت کو اس اقدام کے بعد نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ خود بھارتی سیاست دانوں اور اپوزیشن جماعت کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔