بدھ، 9-اکتوبر،2024
بدھ 1446/04/06هـ (09-10-2024م)

لبنانی تحریک حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کون تھے؟

28 ستمبر, 2024 17:00

بیروت: حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے گذشتہ تین دہائیوں سے لبنانی تنظیم حزب اللہ کومشرق وسطیٰ کے سب سے طاقتور نیم فوجی گروپوں میں تبدیل کیا۔

جمعہ کی سہ پہر اسرائیل نے خوفناک فضائی حملوں نے بیروت میں 6 عمارتوں کو ملبے میں تبدیل کر دیا۔ اسے لبنانی دارالحکومت میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تقریباً ایک سال کی لڑائی میں سب سے بڑا حملہ مانا جا رہا ہے۔

اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ اپنے دیگر کمانڈروں کے ساتھ شہید ہو گئے۔

مزید پڑھیں:اسرائیلی فوج کا حسن نصر اللہ کی بیٹی کو شہید کرنے کا دعویٰ

اسرائیلی فوج نے بیروت میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا لیکن ایرانی میڈیا تسکین نیوز نے حزب اللہ کے سربراہ کی محفوظ ہونے کی خبر دی ہے۔

مزید پڑھیں:اسرائیلی فوج نے حسن نصر اللہ کو شہید کرنے کا دعویٰ کر دیا

لبنانی تحریک کے سربراہ حسن نصراللہ کون ہیں؟

64 سالہ نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف کئی جنگیں لڑی ہیں اور پڑوسی ملک شام کی لڑائی میں بھی حصہ لیا، جس سے صدر بشار الاسد کے حق میں طاقت کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد ملی۔

ایک ہوشیار حکمت عملی ساز:

نصراللہ نے حزب اللہ کو نہ صرف مضبوط کیا بلکہ اسرائیل سے مقابلے کیلئے ایران میں شیعہ مذہبی رہنماؤں اور حماس جیسے فلسطینی عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ اتحاد کو مضبوط کیا۔

لبنان میں ان شیعہ پیروکاروں سمیت عرب اور اسلامی دنیا میں لاکھوں لوگ ان کا احترام کرتے ہیں۔ نصراللہ کو ‘سید’ کا خطاب حاصل ہے، جس کا مطلب یہ ہے انہیں پیغمبر اسلام کے سلسلہ نسب سے جوڑا جاتا ہے۔

حسن نصر اللہ کو ریاستہائے متحدہ اور زیادہ تر مغربی ممالک میں ایک انتہا پسند کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اسی کے ساتھ انہیں دیگر عسکریت پسندوں کے مقابلے میں ایک عملیت پسند بھی سمجھا جاتا ہے جنہوں نے لبنان کی خانہ جنگی کے دوران 1982 میں حزب اللہ کے قیام کے بعد اس پر غلبہ حاصل کیا۔

حسن نصر اللہ کی زندگی کا ابتدائی دور

حسن نصر اللہ 1960 میں بیروت کے غریب شمالی مضافاتی علاقے شارشابوک میں ایک غریب خاندان میں پیدائش ہوئی۔ بعد میں نصراللہ جنوبی لبنان میں بے گھر ہو گئے۔

حزب اللہ کی تشکیل:

مغربی ممالک کا دعویٰ ہے کہ حزب اللہ کو ایرانی پاسداران انقلاب کے ارکان نے تشکیل دیا تھا جو 1982 کے موسم گرما میں اسرائیلی افواج سے لڑنے کے لیے لبنان آئے تھے۔ یہ پہلا گروہ تھا جس کی ایران نے حمایت کی۔

حزب اللہ کے رہنما 39 سالہ سید عباس موسوی کی جنوبی لبنان میں ایک اسرائیلی ہیلی کاپٹر گن شپ حملے میں شہید ہونے کے 2 دن بعد حزب اللہ نے فروری 1992 میں نصر اللہ کو اپنا سیکرٹری جنرل منتخب کیا۔

حزب کا سربراہ بننے کے بعد حسن نصراللہ نے ایک مضبوط طاقت کھڑی کی اور حزب اللہ ایرانی حمایت یافتہ گروپ اور حکومتوں کے ایک جھرمٹ کا حصہ بن گئی جسے مزاحمت کا محور کہا جاتا ہے۔

امریکہ نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا:

نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے جنوبی لبنان کے کچھ حصوں کو آزاد کرانے کے لیے اسرائیل سے طویل جنگ لڑی جس کی وجہ سے 18 سال کے قبضے کے بعد 2000 میں جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجیوں کا انخلا ہوا۔ نصراللہ کا بڑا بیٹا حادی 1997 میں اسرائیلی افواج کے خلاف لڑتے ہوئے مارا گیا تھا۔

2000 میں جنوبی لبنان سے اسرائیل کے انخلاء کے بعد نصر اللہ لبنان سمیت پوری عرب دنیا میں مشہور ہو گئے۔ ان کے پیغامات حزب اللہ کے اپنے ریڈیو اور سیٹلائٹ ٹی وی اسٹیشن پر نشر کیے جاتے تھے۔

حسن نصر اللہ کی یہ حیثیت اس وقت مزید مستحکم ہوئی جب 2006 میں حزب اللہ نے اسرائیل سے 34 روزہ جنگ کی جسے اسرائیل جیت نہیں سکا اور بالآخر سمجھوتے کی بنیاد پر جنگ ختم ہوئی۔ اس کے علاوہ جب 2011 میں شام کی خانہ جنگی شروع ہوئی تو حزب اللہ نے اسد حکومت کی افواج کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے جنگجو لبنان بھیجے۔

موجودہ تنازع میں حسن نصر اللہ کا کردار

7 اکتوبر کو اسرائیل اور حماس کی جنگ شروع ہونے کے ایک دن بعد حزب اللہ نے سرحد پر واقع اسرائیلی فوجی چوکیوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا اور اسے غزہ کے لیے "بیک اپ فرنٹ” قرار دیا۔

حالیہ دنوں میں لبنان سرحد پر کشیدگی میں اضافے، پیجر دھماکوں اور حزب اللہ کی قیادت پر قاتلانہ حملوں کے بعد بھی نصراللہ نے حماس کی حمایت کے موقف کو تبدیل نہیں کیا ہے۔ پیجر دھماکوں کے بعد جاری ہوئی ایک تقریر میں نصر اللہ نے لبنان میں اسرائیل کے ممکنہ زمینی حملوں کو ایک ‘موقع’ سے تعبیر کیا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top