مقبول خبریں
ہر دو سال بعد مغربی ممالک میں پیغمبر اسلام کی گستاخی کی جاتی ہے : وزیراعظم

نیو یارک : وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہر دو تین سال بعد یورپی اور امریکی شہروں میں کوئی ایک فرد سامنے آتا ہے اور پیغمبر اسلام کی گستاخی کرتا ہے، جس سے مسلمانوں میں ردعمل ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دوران ترکی اور پاکستان کے تعاون سے منعقدہ ’نفرت انگیز گفتگو‘ کے خلاف کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’تاریخ گواہ ہے کہ پسماندہ طبقے کے پسے ہوئے لوگوں نے خود کش حملے کیے۔
انہوں نے کہا کہ نائن الیون سے قبل 75 فیصد خود کش حملے ہندو تامل ٹائیگرز نے کیے، دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے امریکی جنگی جہازوں پر خود کش حملے کیے، وہ تمام خود کش حملے مذہب کے لیے نہیں تھے، کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب خود کش حملوں کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ بدقسمتی سے مغربی ممالک کے رہنماؤں نے انتہا پسندی اور خود کش حملوں کو بھی اسلام سے جوڑ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کم و بیش تمام دہشت گردی کی کڑیاں سیاست سے جڑتی ہیں، سیاست کی ناانصافیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات دہشت گردی کو تقویت بخشتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ مغربی میڈیا پر اعتدال پسند، بنیاد پرست، شدت پسند اسلام جیسی اصطلاحات سنتے ہیں، جبکہ اسلام صرف ایک ہے جو محمد ﷺ کا ہے اور اس پر ہی یقین رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا فورم بہت اہم ہے جہاں مسلمان اور مسلم ممالک کے قائدین کو اس امر کی ضرور وضاحت کرنی چاہیے کہ اسلام اور دہشت گردی دو مختلف چیزیں ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جس طرح مسلمانوں میں جنونی طبقہ موجود ہے اسی طرح عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے سدباب کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں : مقبوضہ کشمیر: عالمی خاموشی مایوس کن ہے، کرفیو کے بعد قتل عام کا خدشہ ہے : وزیراعظم
انہوں نے کہا کہ بھارت کی مثال لے لیجیے جہاں انتہا پسند اور نسل پرست ملک پر حکمرانی کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جرمنی اور نیوزی لینڈ میں مساجد میں مسلمانوں کو قتل کیا گیا، لیکن اس کا تعلق مذہب سے نہیں جوڑا گیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک کے باشندوں کو نہیں معلوم ہے کہ پیغمبر اسلام کے خاکے بنانے پر ہمیں کس قدر تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ وہ اس کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنی بطور مسلمان ہمارے نزدیک ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہر دو تین سال بعد یورپی اور امریکی شہروں میں کوئی ایک فرد سامنے آتا ہے اور پیغمبر اسلام کی گستاخی کرتا ہے، جس سے مسلمانوں میں ردعمل ہوتا ہے تو مذہب پر بات کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک کے باشندوں کو اندازہ نہیں ہے کہ اس طرح کی گستاخی سے تمام مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے مسلم ممالک کے رہنماؤں نے بھی مغربی ممالک کو اسلام، توہین رسالت اور دہشت گردی کے بارے میں ٹھیک سے آگاہ نہیں کیا‘۔
عمران خان نے کہا کہ ہولوکاسٹ کی وجہ سے یہودیوں کو دلی تکلیف پہنچتی ہے اور مغربی ممالک ہولوکاسٹ کے معاملے پر بہت محتاط ہیں بالکل اسی طرح انہیں اسلام کے بارے میں بھی حساسیت کا پہلو مد نظر رکھنا چاہیے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر کے اختتام میں کانفرنس کے انعقاد پر ترک صدر کا شکریہ ادا کیا۔
علاوہ ازیں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر انسانیت کے خلاف بدترین جرائم کی وجہ بنتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں جتنے بھی جرائم دیکھ رہے ہیں، ان کے پیچھے یہ نفرت انگیز تقاریر ہیں، جس کا کوئی ٹھوس جواز نہیں ہے۔
ترکی صدر نے بھارت میں مسلمانوں سے متعلق کہا کہ ادھر مسلمان کو گوشت کھانے پر بھی بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس سے بڑی ریاستی دہشت گردی کی کیا مثال ہوسکتی ہے۔
طیب اردوان نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو بہت بڑی جیل میں تبدیل کردیا ہے، جس وقت کرفیو اٹھایا جائے گا تو خونریزی کا خدشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ نفرت انگیز تقریر سے مسلم اُمہ سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔