مقبول خبریں
پنجاب میں ڈینگی سے ہلاکتوں کی تعداد سات ہوگئی

روالپنڈی : پنجاب میں ڈینگی تیزی سے پھیلنے لگا ہے۔ ڈینگی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سات ہو گئی۔
پنجاب میں ڈینگی نے پنجے گاڑ لئیے، آئے دن ڈینگی کے مریضوں میں اضافے نے محکمہ صحت کے انتظامات پر کئی سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔
ڈینگی نے اب تک 7 زندگیاں بھی نگل لیں، جبکہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید دو سو بیالیس افراد میں مرض کی تصدیق بھی کر دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کراچی میں ڈینگی کے وار، ہلاکتوں کی تعداد 10 ہوگئی
محکمہ صحت کے حکم کیمطابق اسپتالوں میں ڈینگی کے مفت ٹیسٹ تو کئے جا رہے ہیں، مگر ڈینگی مچھر سے چھٹکارا پانا محکمہ صحت کیلئے مشکل ہو گیا ہے۔
اسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کیلئے الگ سے ڈینگی وارڈز کا بھی قیام کر دیا گیا ہے، جبکہ انہیں فری ادویات کی فراہمی کے ساتھ ڈینگی سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔
لاہور سے اب تک چھ مریض رپورٹ ہو چکے ہیں، جبکہ صوبے بھر میں رواں برس متاثرہ افراد کی تعداد دو ہزار دو سو چھیاسی ہو گئی ہے، مگر پنجاب حکومت کی بہترین طبی سہولیات اور مختلف آگاہی مہم بھی ڈینگی کے قہر پر قابو نہ پا سکیں ہیں۔
ڈینگی کیا ہے ؟
ڈینگی ایک وائرس ہے جو کہ مچھروں کی ایک قسم کے مچھروں کے ذریعہ پھیلتا ہے۔ یہ استوائی خطے کی وائرس ہے اور تقریباً 110 ممالک اس سے متاثر ہیں۔ اس وائرس کی چار مختلف اقسام ہیں۔
اس کی ایک قسم سے متاثرہ شخص میں زندگی بھر کیلئے صرف اسی قسم کی وائرس مدافعت بن جاتی ہے، لیکن دوسری قسموں سے وہ پھر بھی متاثر ہوسکتا ہے اور یہ اس کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
ڈینگی وائرس کی وجہ سے متاثرہ شخص میں بخار ہوسکتا ہے، جسم پر دھبے نمودار ہوسکتے ہیں، دست اور قئے آسکتی ہیں۔ زیادہ شدید حملے میں دانتوں، مسوڑھوں اور آنتوں وغیرہ سے خون رسنا شامل ہوسکتا ہے۔
80 فیصد مریضوں میں یہ علامات درمیانے درجے کی ہوتی ہیں، لیکن 50 فیصد لوگوں میں انتہائی درجے کی۔ سر درد، جوڑوں اور ہڈیوں کا درد اور دھبوں کا ہونا واقع ہوتا ہے۔
ہڈیوں اور جوڑوں میں درد کی وجہ سے اس بخار کا نام ہڈی توڑ بخار بھی مشہور ہے۔ بچوں اور جوانوں میں یہ زیادہ ہوسکتا ہے۔ مچھر کے کاٹنے اور علامات ظاہر ہونے کے درمیان کا وقفہ 3 سے 14 دن ہوسکتا ہے۔
اس بیماری سے بچاؤ کیلئے حفاظتی اقدامات کرنا انتہائی ضروری ہیں۔ یہ مچھر صبح اور شام کے وقت خاص طور پر کاٹتا ہے، صبح اور شام میں اپنا جسم ڈھانپنے، پانی کا صحیح نکاس اس مچھر کو بیماری پھیلانے اور افزائش نسل سے روکنے میں خاصا مددگار ثابت ہوتا ہے۔
حفاظتی اقدامات ہی اس وائرس سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ انتہائی درجے کے مریضوں میں یہ وائرس دماغ کی جھلی کو متاثر کرتا ہے اور پھر انسانی اعضاء کو کام کرنے سے روک دیتا ہے، جس سے مریض یقینی طور پر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
Aedes مچھر کا حجم عام مچھر سے زیادہ ہوتا ہے اور اس پر لکیریں بنی ہوتی ہیں۔ خون کے ٹیسٹ لے کر اس وائرس سے متاثرہ شخص کی حتمی طور پر تشخیص ہوجاتی ہے۔