مقبول خبریں
اسرائیل کی دشمنی مشکلات سے بھرپور مگر دوستی تباہی اور بربادی
لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کے قتل نے تنازعات میں گھرے ہوئے مشرق وسطیٰ میں براہ راست فوجی تصادم کو مزید خطرناک بنا دیا ہے، حزب اللہ کے قائم مقام سربراہ حاج نعیم قاسم نے گزشتہ روز ایک ٹیلی وائز خطاب میں کہا ہے کہ ہم اسرائیلی فوجیوں کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ ہمارے علاقوں میں آئیں تاکہ حزب اللہ کے مجاہدین اِن کا میدان جنگ میں مقابلہ کرسکیں۔
حزب اللہ کے سکیورٹی ذرائع بظاہر اسرائیلی فوج کے زمینی حملے سے خوفزدہ نظر نہیں آرہے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت کا کئی سالوں سےانتظار کررہے تھے اور مسلسل تیاریاں میں مصروف تھے، غزہ میں حماس کیساتھ گوریلا لڑائی میں اور اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی علاقوں میں حزب اللہ کے حملوں سے اسرائیلی فوجیوں کا جانی نقصان کچھ زیادہ نہیں ہوا لیکن میدان جنگ میں اسرائیلی فوجیوں کاجانی نقصان کا ہونا لازمی امر ہے، یہودی موت سے ڈرتے ہیں جسکا قرآن میں سوری جمعہ میں ذکر موجود ہے لہذا اسرائیل زمینی جنگ پر زیادہ انحصار نہیں کرئے اپنے بولے ہوئے کی لاج رکھتے ہوئے زمینی جنگ سے جلد دستبردار ہوجائیگا۔
حالانکہ اسرائیلی فوج کو بہترین انٹیلی جنس رسائی اور فضائی برتری حاصل ہے، حزب اللہ اور دیگر غیر ریاستی مسلح گروہوں کو روایتی جنگ کے مقابلے میں گوریلا فائٹنگ کی تربیت زیادہ دی جاتی ہے تاکہ وہ دشمن کو سرپرائز دے سکیں، حالیہ تاریخ میں روایتی فوجیں گوریلا جنگ لڑکر کامیاب نہیں ہوئی ہیں،اس کی مثال قدئم مثال ویتنام ہے اور جدید مثال افغانستان ہے، امریکہ اور نیٹو فورسز افغان گوریلا جنگ میں ناکامہ اور نامرادی دیکھ چکے ہیں، غزہ میں اسرائیل کا زمینی آپریشن کے دوران اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں لیکن غزہ میں لڑنے والے مجاہدین کیلئے ہتھیاروں کی ترسیل کا کوئی بھی راستہ کھلا ہوا نہیں تھا جو ہتھیار تھے انہیں سنبھال سنبھال کر استعمال کیا گیا لیکن لبنان میں حزب اللہ کی پوزیشن مختلف ہے ایک تو یہ کہ حزب اللہ کو اپنی حکومت کی حمایت حاصل ہے دوسرا یہ کہ حزب اللہ کیلئے ہتھیاروں کی ترسیل کے ایک سے زیادہ محفوظ راستے موجود ہیں، حماس نے زمینی جنگ کے دوران اسرائیلی فوج کو محدود جانی نقصان پہنچا سکی جبکہ لبنان کے معاملے میں ایسا نہیں ہوگا۔
دنیا بھر سے حزب اللہ کے ہمدردوں کا لبنان پہنچنا خارج از امکان نہیں ہے۔ سنہ 1980 ء کی دہائی میں لبنان میں موجود امریکی اور فرانسیسی فوج بھی وطن پرست مجاہدین کا مقابلہ نہیں کرسکی تھی اور اِن ملکوں کو ذلت کیساتھ لبنان چھوڑنا پڑا تھا، دوسری طرف اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ جنوبی لبنان کے اُن علاقوں میں جہاں حزب اللہ کی عسکری طاقت موجود ہے اور وہ اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی علاقوں کیلئے گزشتہ ایک سال سے خطرہ بنے ہوئے ہیں صرف اُسے ختم کرنا چاہتا ہے، واضح رہے سات اکتوبر 2023ء کے بعد حزب اللہ نے اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی علاقوں کے شہروں اور قبضوں کو یہودی آبادکاروں کیلئے جہنم بنادیا اورجسکی وجہ سے 60 ہزار یہودی آبادکار وسطی اسرائیل میں منتقل ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔
اسرائیل کھنڈر بنتے ہوئے شمالی علاقوں کی سلامتی کیلئے فکرمند ہے وہ ایک بار پھر اِن عرب علاقوں میں یہودی آبادکاروں کو بسانا چاہتا ہے تاکہ اِن علاقوں کا ہاتھ سے نکلنے کا امکان کم ہوجائے، اس حقیقت کو نظرانداز کرناممکن نہیں کہ مغربی ایشیاء میں پنپنے والی جنگی صورتحال خطے میں خونریزی کا سبب تو بنے گی ساتھ ہی پوری دنیا کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے، کشیدگی جو پہلے ہی نازک سطح پر پہنچ چکی ہے، اب ایک مکمل جنگ کی شکل اختیار کر نے جارہی ہے جس سے نہ صرف لبنان اور اسرائیل بلکہ ممکنہ طور پر ایران اور ترکی جیسی دیگر علاقائی طاقتیں بھی متاثر ہوں گی، حزب اللہ جو خطے میں ایران کا بنیادی فوجی اور سیاسی اثاثہ ہے پہلے ہی اپنے قائد سید حسن نصر اللہ اور دیگر اہم کمانڈرز کی شہادت سے غم زدہ اور سوگوار ہے ، یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ درپیش صورتحال میں تہران کیا جواب دے گا؟
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایرانی قوم کو پیغام بھیجا ہے جس کے مفہوم میں یہ بات پنہا ہے کہ ایرانی عوام اپنی قیادت کو اسرائیل مخالف اقدامات سے روکے، اسرائیلی وزیراعظم کا خوف حقیقت پر مبنی ہے، دانا دشمن اور نادان دوست ایرانی حکومت پر تنقید کررہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے خلاف کیوں نہیں براہ راست جنگ چھیڑ رہا ہے! کیا اس میں کوئی شبہ ہے کہ ایران اس وقت اسلامی مزاحمت کا محور ہے، حزب اللہ، حشد الشعبی،انصار اللہ، حماس اور الجہاد کا پشت پناہ ہے اور اِن عسکری قوتوں نے صرف اسرائیل نہیں پورے مغرب کو ہلا کر رکھا ہوا ہے اور گزشتہ ایک سال کے دوران مغربی حکومتوں پر انسانی حقوق کے تحفظ کی پڑی نقاب کو اُتار ڈالا ہے اور اِن کے گندے جسم پر موجود لباس سے آزاد کردیا ہے۔
اسلامی دنیا کو مایوس ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے، اسرائیل اور مغرب کا معاشی خسارہ اِن کی استکباریت کا بوجھ زیادہ دیر نہیں اُٹھا سکے گا، مغرب کی جنت عنقریب جہنم بنے والی ہے، امریکی ایماء پر شہیدنصراللہ کو قتل کیا گیا ہے، امریکہ کی جانب سے بنکر بسٹرڈ بم فراہم کئے گئے تھے، حزب اللہ نے طویل جنگ کیلئے تیار ہونیکا اعلان کیا ہے، اسرائیل جس سکون کی تلاش میں ہے وہ سکون شہید نصرا للہ کے اس دنیا کو چھوڑنے کیساتھ ہی ختم ہوگیا کیونکہ اُس نے ریڈلائن عبور کری ہے، سید حسن نصراللہ حزب اللہ اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مزاحمت پسند عناصر کی روحانی قائد تھے، جو اسرائیل سے لڑنے کیلئے کمربستہ ہیں ، حزب اللہ کی یہ قوت کبھی ختم نہیں ہوسکے گی لیکن یہ ضرور ہے کہ اسرائیل کی نسل پرست سوچ کے پیروکار ختم ہوجائیں ، یہودیوں کو اس بات کا ادرک ہی نہیں ہے کہ وہ صرف امریکی شیطان کے ایک پیادے ہیں، جسے امریکہ اپنی طاقت بچانے کیلئے کسی وقت بھی مروا سکتا ہے۔
خطے میں جنگ کی شدت سے علاقائی عدم استحکام کے ساتھ توانائی کی عالمی منڈیوں اور بین الاقوامی سلامتی کے لئے خطرہ ہو گا، حزب اللہ کے رہنما کی شہادت واقعی غیر متوقع نہیں تھی، اسرائیلی انٹیلی جنس برسوں سے نصراللہ کو راستے سے ہٹانے کی کوششیں میں مصروف تھیں، اسرائیلی کے اس حوالے سے ملین آف ڈالرز کے کئی آپریشنز ناکام ہوئے، اگر سات اکتوبر رونما نہ ہوتا تو کچھ ہی وقت کی بات تھی کہ اسرائیلی ایجنسیاں اس مرد آہن کو ختم کر دیتیں جسے اسرائیلی قیادت اپنی قومی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھتے تھے، نصراللہ کو کئی سالوں سے عوام میں نہیں دیکھا گیا تھا اور وہ مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے تھے، اُن کی شہادت خاتمہ بلخیر کا واضح اشارہ ہے۔