مقبول خبریں
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سب سے بڑا خطرہ بن گئی
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سب سے بڑا خطرہ بن گئی ہے۔ موسمیاتی تغیرات کو روکنے کے لیے موثر اقدامات نہ کیے گئے تو 2050تک پاکستان کی معیشت 18 سے 20 فیصد تک نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے ۔۔تاہم 2030 تک صاف پانی کی فراہمی کی مد میں معشیت پر 450 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا ۔۔۔
سب سے ذیادہ موسمیاتی تبدیلی کےشکار ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے ۔۔2022 میں آنے والے سیلاب سے پاکستان کو 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ۔۔ لاکھوں افراد غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔۔سیلاب سے لائف اسٹاک اور انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا۔ مالی و جانی نقصانات کا ازالہ ممکن ہی نہیں ہے گزشتہ دنوں انسٹیٹیوٹ آف اربن ازم کی جانب سے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے معیشت پر ہونے والے اثرات سے متلعق رپورٹ جاری کی ۔جس کے اعدادوشمار نہ صرف خوفناک ہیں بلکہ حکومت کے لیے باعث تشویش بھی ہے ۔پاکستان مستقبل قریب میں شدید موسمیاتی تبدیلیوں اور فضائی آلودگی کا شکار ہوسکتا ہے۔۔۔پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے تو 2050تک معیشت میں 18سے 20فیصد نقصان کا خدشہ ہے۔
بڑھتی ہوئی ابادی ،، بے ہنگم ٹریفک ،درختوں کی بے دریغ کٹائی ،شہروں کی آباد کاری میں اضافہ اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کا پھیلتا ہوا جال ،صنعتوں سے نکلنے والا آلودہ دھواں اور زہریلی گیسوں کا اخراج کے باعث فضا آلودہ ہو رہی ہے انسٹیٹیوٹ آف ارب ازم کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے آلودہ ترین ممالک میں 3 نمبر پر ہے کراچی لاہور فیصل اور پشاور سب سے زیادہ آلودہ شہر قرار دیے جا چکے ہیں اور خصوصاً کراچی رہنے کے لحاظ سے 5بد ترین شہروں شامل ہو چکا ہے ۔۔جنوبی ایشیا میں پاکستان کی شہری ابادکاری کی شرح میں سالانہ 3 فیصد اضافہ ہو رہا ہے پاکستان کی 37 فیصد ابادی شہروں میں مقیم ہے جو 2050 تک پچاس فیصد ہو جاے گی ۔۔ ملک کے دس بڑے شہروں پر ابادی کا 54 فیصد بوجھ ہے۔
یہ بھی پڑھیں بلیو اکانومی۔۔۔ کیا اور پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
ملک میں پینے کا صاف پانی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں 52فیصد گھرانوں کو پینے پانی دستیاب ہے اور کل آبادی کا 40.2فیصد ابادی کو صاف پانی کی سہولت میسر ہے2050تک پانی کی ضرورت 15فیصد تک بڑھ جائے گی دنیا کے 122 ممالک میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی پاکستان 80ویں نمبر پر ہے ۔۔۔2030تک پاکستان کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے450 ارب کی ضرورت ہو گی ۔جو یقینی طور پر معیشت پر بوجھ ہی ہوگا ۔۔۔رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ سیلاب سے حاصل شدہ پانی ضائع ہو جاتہے پاکستان میں صرف 1 فیصد گندے پانی کو قابل استعما ل بنایا جا رہا یے ۔پانی پر موجود پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے مون سون میں زیادہ بارشوں کے باعث ایک طرف جہاں کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے وہی ہزاروں کیوسک پانی سمندر میں جا گرتا ہے ۔۔پانی کی گزر گاہوں پر چھوڑے چھوٹے ڈیم بنا کر پانی کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے ۔۔۔موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا ۔۔کیونکہ یہ انفرادی نہیں اجتماعی زمہ داری ہے ۔مختصر اور موثر اقدامات سے موسمیاتی تغیرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔