اتوار، 9-فروری،2025
اتوار 1446/08/10هـ (09-02-2025م)

خطرناک امریکی مجرموں کو کونسا ملک پناہ دے رہا ہے؟

04 فروری, 2025 17:25

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اعلان کیا ہے کہ ایل سلواڈور پرتشدد امریکی مجرموں اور کسی بھی قومیت کے ملک بدر ہونے والے افراد کو پناہ دے گا۔

مارکو روبیو نے ایل سلواڈور کے صدر نائب بوکیلے سے ملاقات کے بعد اس معاہدے کا اعلان کیا، جو ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن پالیسی کے لیے علاقائی حمایت کو مستحکم کرنے کے مقصد سے وسطی امریکا کے متعدد ممالک کے دورے کا حصہ ہے۔

سی این این کے مطابق مارکو روبیو نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہمارے ملک کے ساتھ غیر معمولی دوستی کے عمل میں ایل سلواڈور نے دنیا میں کہیں بھی سب سے زیادہ بے مثال اور غیر معمولی تارکین وطن کے معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایل سلواڈور غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والے جلاوطنوں کو قبول کرنا جاری رکھے گا۔

امریکی سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ ایل سلواڈور اور وینزویلا سے تعلق رکھنے والے دو بدنام زمانہ بین الاقوامی گروہوں کو سلواڈور منتقل کرکے وہاں جیلوں میں رکھا جائے گا۔

روبیو نے کہا کہ ایل سلواڈور ہمارے ملک میں زیر حراست خطرناک امریکی مجرموں کو اپنی جیلوں میں رکھے گا، ان افراد میں امریکی شہریت کے حامل افراد بھی شامل ہیں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ آیا امریکی حکومت اس پیشکش کو قبول کرے گی یا نہیں، تاہم اس طرح کے اقدامات کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے قید امریکی شہریوں کو کسی دوسرے ملک واپس بھیجنے کی کسی بھی کوشش کو قانونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بعد ازاں ایل سلواڈار کے صدر بوکیلے نے مارکو روبیو کے ساتھ معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے ایک پوسٹ میں کہا کہ ‘ہم فیس کے عوض صرف سزا یافتہ مجرموں (بشمول سزا یافتہ امریکی شہریوں) کو اپنی میگا جیل (سی ای سی او ٹی) میں لینے کے لیے تیار ہیں۔’

ایل سلواڈور کا قید مرکز جسے عام طور پر سی ای سی او ٹی کے نام سے جانا جاتا ہے ، ملک کی سب سے بڑی اور جدید ترین جیل ہے جس میں زیادہ سے زیادہ 40،000 قیدیوں کی گنجائش ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فیس امریکا کے لئے نسبتا کم ہوگی لیکن ہمارے لئے اہم ہوگی جس سے ہمارا پورا جیل کا نظام پائیدار ہوجائے گا۔

ٹرمپ انتظامیہ اور صدر کے اتحادیوں نے فوری طور پر اس اعلان کی تعریف کی ہے اور ایلون مسک نے ایکس پر ایک پوسٹ میں اسے ایک "عظیم خیال” قرار دیا ہے۔

لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس معاہدے کی مذمت کی اور ناقدین نے متنبہ کیا کہ اس طرح کا منصوبہ جمہوری پسپائی کا حصہ ہو سکتا ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top