مقبول خبریں
متنازع پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 ہائیکورٹ میں چیلنج

حال ہی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے والے پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔
صحافی جعفر بن یار کی جانب سے دائر درخواست میں وفاقی حکومت، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور دیگر متعلقہ اداروں کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ ترامیم خاص طور پر ‘جعلی خبروں’ کی سزاؤں سے متعلق ہیں جو اظہار رائے کی آزادی کے آئینی حق کے لیے خطرہ ہیں۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے قانون (پیکا) میں نئی منظور شدہ ترامیم اظہار رائے کی آزادی کے آئینی حق کو کمزور کرتی ہیں۔
جعفر بن یار نے مؤقف اختیار کیا کہ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں منظور ہونے والا پیکا ترمیمی بل صحافی تنظیموں سمیت اہم اسٹیک ہولڈرز سے مناسب مشاورت کے بغیر پیش کیا گیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کو کالعدم قرار دے اور حتمی فیصلے تک قانون کے تحت کسی بھی کارروائی کو معطل کرے۔
متنازعہ دفعات
22 جنوری کو قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 نے آن لائن غلط معلومات کو ہدف بنانے والی اس کی دفعات کی وجہ سے اہم بحث کو جنم دیا۔
ترمیم کے سیکشن 26 (اے) کے تحت خوف یا عدم تحفظ پیدا کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کر سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے والے افراد کو تین سال تک قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔
ترمیمی بل میں ایک نئی سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام بھی شامل ہے، جسے ملک میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نگرانی اور ریگولیٹ کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔
اتھارٹی کے پاس سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو رجسٹر کرنے اور ان کی رجسٹریشن منسوخ کرنے، مواد کے معیارات کو نافذ کرنے اور صارفین کے حقوق کے تحفظ کا اختیار ہوگا۔
اگر غیر قانونی مواد شیئر کیا جاتا ہے تو اتھارٹی انضباطی کارروائی کرنے اور 24 گھنٹوں کے اندر ایسے مواد کو ہٹانے کی ہدایات جاری کرنے کی مجاز ہوگی۔
بل میں سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کی تشکیل کا بھی خاکہ پیش کیا گیا ہے، جس میں نو ارکان شامل ہوں گے، جن کے عہدوں پر پی ٹی اے اور پیمرا کے چیئرمین جیسے بڑے عہدیدار فائز ہوں گے۔
قابل ذکر ہے کہ اتھارٹی میں صحافی برادری کے نمائندے شامل ہوں گے، جنہیں کم از کم 10 سال کا پیشہ ورانہ تجربہ ہوگا۔
ملک بھر میں مظاہرے
پیکا ترمیمی بل کی منظوری کے بعد پاکستان بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں، صحافیوں، سول سوسائٹی کے کارکنوں اور حزب اختلاف کے گروپوں نے اظہار رائے کی آزادی کو دبانے اور ڈیجیٹل میڈیا پر بڑھتے ہوئے کنٹرول پر تشویش کا اظہار کیا۔
خاص طور پر صحافیوں نے ترمیم کا مسودہ تیار کرنے کے دوران مشاورت کے فقدان اور اختلاف رائے و آزادانہ رپورٹنگ کو خاموش کرنے کے لیے قانون کے غلط استعمال کے امکانات پر تنقید کی۔
سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل کے قیام، جس میں ہائی کورٹ کے ایک سابق جج بطور چیئرمین شامل ہوں گے، نے بھی حکومت کے حق میں متعصبانہ فیصلوں کے امکان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
احتجاج کے باوجود سینیٹ نے اتوار کے روز ترمیمی بل منظور کیا جس سے اس کی باضابطہ منظوری کی راہ ہموار ہوگئی۔