ہفتہ، 18-جنوری،2025
ہفتہ 1446/07/18هـ (18-01-2025م)

تحریر الشام کو دہشت گرد تنظیموں سے نکالنے کا کام ٹرمپ کے سپرد

10 جنوری, 2025 16:19

وائٹ ہاؤس سے باہر آنے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سبکدوش ہونے والے امریکی صدر جو بائیڈن نے شام کے حکمران حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) عسکریت پسند گروپ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں رکھنے سے متعلق فیصلہ کرنے کا کام ڈونلڈ ٹرمپ کے سپرد کردیا۔

ایچ ٹی ایس کی قیادت میں غیر ملکی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں نے 8 دسمبر کو دمشق کا کنٹرول سنبھال لیا اور بشار الاسد کی حکمرانی کے خاتمے کا اعلان ایک حیرت انگیز حملے میں کے بعد کیا جس کا آغاز شمال مغربی شام میں باغیوں کے مضبوط گڑھ سے شروع ہوا تھا، جو دو ہفتوں سے بھی کم عرصے میں دارالحکومت دمشق تک پہنچ گئے۔

اس سے قبل امریکہ نے ایچ ٹی ایس کے سربراہ ابو محمد الجولانی کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد کی ملاقات کے بعد اس کے سر پر رکھے گئے 10 ملین ڈالر کا انعام ختم کر دیا تھا لیکن اس کا گروپ اب بھی غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی امریکی فہرست میں شامل ہے، واشنگٹن پوسٹ نے بدھ کو اس معاملے سے واقف تین امریکی اہلکاروں جنھوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط عائد کی ہے۔

بتایا جارہا ہے کہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ ایچ ٹی ایس کے حکمرانوں بشمول الجولانی کو دہشت گردی کی فہرست میں اپنے دور کے اختتام تک برقرار رکھے گی اور حتمی فیصلہ آنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر چھوڑ دیا جائے گا، ذرائع نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایچ ٹی ایس عسکریت پسند گروپ کو دہشت گرد تنظیموں خاص طور پر القاعدہ سے تعلقات مکمل طور پر منقطع کرنا ہوگا اور اس کی نگرانی امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے کریں گے اور سالانہ بنیاد پر اس کی تصدیق کرنا ہوگی کہ ایچ ٹی ایس کا تعلق القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں سے نہیں ہے۔

یہ امریکی حربہ واشنگٹن میں برسر اقتدار آنے والی دونوں سیاسی جماعتوں کیلئے بہت زیادہ آزمودہ رہا ہے، امریکی انتظامیہ اسی حربے سے تیسری دنیا کے متعدد ملکوں پر اپنی مرضی مسلط کرتی ہے لیکن شام کے حوالے سے معاملہ نہایت پیچیدہ ہے، اس وقت شام کے جغرافیائی طور پر تین قوتوں کے درمیان تقسیم ہے، امریکہ اور ترکی دونوں نے ھئیت تحریر الشام کو ہتھیار اور مالی وسائل فراہم کئے تاکہ وہ دمشق تک پہنچ سکیں لیکن اِن دونوں ممالک کے اہداف اور مقاصد متضاد ہیں، تیسری قوت اسرائیل ہے جس نے شام کے قابل ذکر رقبے پر قبضہ کرلیا ہے، جس کی 77 سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جس سرزمین پر اُس نے قبضہ کیا اُسے آسانی سے واگزار نہیں کرایا جاسکا۔

ھئیت تحریر شام کو فی الحال مستعفی صدر بشار الاسد کے تمام سیاسی مخالفین کی حمایت حاصل ہے تاہم کرد لسانی اکائی دو گروہوں میں تقسیم ہے، ایک گروہ کی امریکہ اور دوسرے گروہ کی ترکیہ مدد کررہا ہے، ترکیہ میں 42 فیصد آبادی کرد ہے اور وہ طیب اردوگان کی حکومت سے خوش نہیں ہیں، ترکیہ کی اردوگان حکومت اِن پر خود مختار کرد وطن کیلئے مخفی تحریک حصّہ ہونے کا الزام لگاتی رہی ہے۔

ترکیہ کیلئے مشکل صورتحال ہوگی کہ وہ ایک عرب ملک کی لسانی بنیاد پر تقسیم کا حصّہ بننے جبکہ اُسکی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہوں البتہ امریکہ کیلئے شام کو لسانی بنیاد پر تقسیم کرنا بلکل خطرے کی بات نہیں ہے، اگر شام لسانی بنیاد پر تقسیم ہوتا ہے تو امریکہ کو اسکا فائدہ ہی ہوگا، امریکہ اس وقت بھی لسانی اور مذہبی بنیاد پر شام کی خودمختاری کو مجروح کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

یورپی یونین  اور امریکہ دمشق کے حکم فرماں الجولانی سے ملاقاتیں کررہے ہیں اور انہیں بشار الاسد حکومت ختم کرنے کیلئے لگائی گئی پابندیاں رفتہ رفتہ ختم کرنے کی نوید سنا رہے ہیں، اس ہفتے کے آغاز پر امریکی محکمہ خزانہ نے شام پر بشار الاسد حکومت کے دور میں مالی لین دین پر لگائی گئی پابندیاں چھ ماہ کیلئے نرم کی ہیں، اس کا مقصد بہت روشن ہے یعنی جس مسلح گروہ کو دمشق تک پہنچایا ہے اُسے فی الحال امیر عرب ملکوں کی دولت کےذریعے برقرار رکھنا ہے لیکن اس کیلئے الجولانی کو اپنے نظریات کی قربانی دینا پڑرہی ہیں۔

مغربی ممالک مذہبی شدت پسندی کو قابو میں رکھنے کیلئے جولانی کو پیغامات دے رہے ہیں لیکن پھر بھی مذہبی مخالفین پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے، جس پر امریکہ اور یورپ نے آنکھیں موند رکھی ہیں کیونکہ اس فائدہ اسرائیل نے اُٹھانا ہے۔

مسلمان جب بھی دست و گریباں ہوتے ہیں امریکہ اور اسرائیل نہال ہوتے ہیں، اس صورتحال میں مزاحمتی قوتوں کی صبر کرنے پر مبنی پالیسی نے امریکہ اور یورپ کے مذموم عزائم کی راہ میں رکاوٹ ڈال ضرور ڈال دی ہے مگر امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس، برطانوی انٹیلی جنس ایم آئی فائیو کی معاونت سے صبر کرنے کی پالیسی کے خلاف سرگرم ہیں، خیال رہے مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور باہمی نفاق کو بڑھاوا دینے صدیوں پر محیط مہارت ایم آئی فائیو کو حاصل ہے اور خطے میں ایم آئی فائیو کا نیٹ ورک کا بہت سے عرب خاندان حصّہ ہیں جو نسل در نسل اِن کے مددگار ہیں۔

موجودہ امریکی مقتدرہ ڈونلڈ ٹرمپ کو جس کرسیِ صدارت پر بیٹھانا چاہتی ہے اُسے کانٹوں سے بھر دیا گیا ہے، اس کی ایک مثال ھئیت تحریر الشام کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کا معاملہ بھی ہے، بائیڈن جاتے جاتے کوئی ایسی بدنامی ڈیموکریٹس کی جھولی میں نہیں ڈالنا چاہتے جس کے نتائج کا فی الحال انہیں علم نہیں، داعش، القاعدہ، طالبان جسی مسلح تنظیمیں وہ مثال ہیں جنہیں امریکہ نے بنایا تو لیکن وقت گزرنے کے بعد یہ تنظیمیں اُس کیلئے ہی درد سر بن گئیں۔

مغربی ایشیاء میں ایک اہم تبدیلی آئی ہے امریکہ اور سعودی عرب کے متفقہ صدارتی اُمیدوار جوزف عون کو لبنان کا صدر منتخب کرلیا گیا ہے، اِن کا انتخاب حزب اللہ اور اسکی اتحادی شیعہ تنظیم امل کی مدد سے ممکن ہوا، جوزف عون کا بنیادی کام اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی علاقوں کو حزب اللہ سے محفوظ بنانا ہے اور اس کے بدلے امریکہ نے امیر عرب ملکوں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کو اجازت دی ہے کہ وہ حالیہ اسرائیلی بمباری سے متاثرہ جنوبی لبنان کے علاقوں کی تعمیر نو کرسکیں۔

نوٹ: جی ٹی وی نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top