جمعرات، 20-فروری،2025
بدھ 1446/08/20هـ (19-02-2025م)

کورونا اور ایچ ایم پی وائرس میں کیا فرق ہے؟

08 جنوری, 2025 13:44

چین میں نئے سانس کے وائرس کے بڑھتے کیسز نے لوگوں کو کورونا جیسی ایک اور وبائی بیماری کے بارے میں فکر مند کر دیا جس نے پانچ سال قبل دنیا کو جمود کا شکار کر دیا تھا۔

طبی ماہرین کے مطابق فلو جیسے انسانی میٹاپینووائرس (ایچ ایم پی وی) کے کیسز کو موسمی اضافے سے منسوب کیا گیا ہے اور یہ بہت کم تشویش ناک ہے۔

ایچ ایم پی وی کوویڈ 19 سے مماثلت نہیں رکھتا کیونکہ یہ وائرس پاکستان سمیت کئی ممالک میں دہائیوں سے موجود ہے جس نے پانچ سال کی عمر تک تقریبا ہر دوسرے بچے کو متاثر کیا ہے۔

ایچ ایم پی وی کیا ہے اور اس کی علامات کیا ہیں؟

ایچ ایم پی وی  ایک عام وائرس جو سانس کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے، یہ فلو سے مختلف نہیں ہے۔ وہ ممالک جو مہینوں تک سرد موسم کا تجربہ کرتے ہیں ان میں موسمی طور پر ایچ ایم پی وی ہوتا ہے جبکہ یہ خط استوا کے قریب ممالک میں پورے سال کم سطح پر گردش کرتا ہے۔

یہ وائرس، جس کی پہلی بار 2001 میں نیدرلینڈز میں نشاندہی کی گئی تھی، لوگوں کے درمیان براہ راست رابطے کے ذریعے پھیلتا ہے۔

اس وائرس کی علامات میں کھانسی، بخار اور ناک بند ہونا شامل ہیں۔

متعدی امراض کے معالج سو لی یانگ کے مطابق دو سال سے کم عمر کے بچے، کمزور مدافعتی نظام کے حامل افراد بشمول بزرگ اور ایڈوانس کینسر میں مبتلا افراد سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر یانگ کا کہنا ہے کہ جو لوگ انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں ان کے پھیپھڑوں کے متاثر ہونے سے زیادہ سنگین بیماری پیدا ہو سکتی ہے۔

چین میں کیسز میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

ایچ ایم پی وی سردیوں اور بہار کے موسم میں سب سے زیادہ فعال ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹھنڈے درجہ حرارت میں بہتر طور پر زندہ رہتا ہے۔ وائرس آسانی سے بھی منتقل ہوجاتا ہے کیونکہ لوگ اس موسم میں گھروں میں رہتے ہیں۔

آسٹریلیا کی فلنڈرز یونیورسٹی کی وبائی امراض کی ماہر جیکولین سٹیفنز کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ تشویش ناک ہے لیکن یہ اضافہ موسم سرما میں ہونے والا معمول کا موسمی اضافہ ہے۔

کیا ایچ ایم پی وی، کووڈ 19 میں مماثلت ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 جیسی وبائی بیماریاں نوول پیتھوجینز کی وجہ سے ہوتی ہیں اور خوش قسمتی سے ایچ ایم پی وی کے معاملے میں ایسا نہیں۔

انگلینڈ میں یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا کے میڈیکل پروفیسر پال ہنٹر کا کہنا ہے کہ ‘تقریبا ہر بچے کو اپنی پانچویں سالگرہ تک ایچ ایم پی وی کا کم از کم ایک انفیکشن ہوگا اور ان کا زندگی بھر متعدد بار انفیکشن کا شکار ہونے کا امکان ہے۔

تاہم ڈاکٹر یانگ اب بھی لوگوں کو ماسک پہننے، ہجوم سے بچنے، ہاتھ دھونے اور فلو ویکسین لگوانے جیسی معیاری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top