مقبول خبریں
ایران کے 50 ارب ڈالر کا حساب کتاب لگاتے ہوئے امریکی جنگی اخراجات کو بھی یاد کرلیں؟
مغرب کا گودی میڈیا 2011ء سے 2020ء کے دوران امریکہ، اسرائیل اور ترکیہ کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں سے دمشق حکومت کو بچانے اور اسرائیل کی توسیع پسندی کے سامنے مضبوط دیوار کھڑی کرنے پر ایران کے کم و بیش 50 ارب ڈالر کے اخراجات کو لیکرمذموم پروپیگنڈا مہم چلا رہا ہے۔
ایرانی عوام سے ہمدردی جتاتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ یہ رقم ایران کی بدتر اقتصادی صورتحال کو بدلنے کیلئے خرچ کی جاتی تو ایرانی ریال ڈالر کے مقابلے میں ناقابل قبول حد تک بے قدری کے انجام سے دوچار نا ہوتا، درست ہے کہ ایران نے صدر بشار الاسد حکومت کی فوجی اور سفارتی مدد کے دوران 50 ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کی ہے اور اپنی عوام کا پیٹ کاٹ کر یہ رقم شامی ریاست کو دہشت گردی سے بچانے کیلئے دی،بشار الاسد جس حکومت کی سربراہی کررہے تھے اُس کی اقوام متحدہ میں نمائندگی تھی ، غلط سمت میں تو دمشق کے خلاف برسرپیکارمسلح گروہوں کی حمایت کرنے والی ریاستیں کھڑی تھیں، فرانس میں مظاہرین کو بہت زیادہ ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان میں حال ہی میں مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں، چین،سعودی عرب، متحدہ عرب امارات میں حکومتوں کے مخالفین کو درد ناک طریقوں سے اذیت پہنچائی جاتی ہے اور خود امریکہ میں اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کرنے والوں کو ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، اسکا مطلب یہ ہے کہ فرانس ، چین ، سعودی عرب اور امریکہ سمیت کسی بھی ملک میں حکومتوں کی مخالفت کرنے والوں کو اسلحہ اور رقم فراہم کی جائے تاکہ وہ یہ اسلحہ ریاستی اداروں کے خلاف استعمال کریں اس طرح تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائیگا، یہ منطق درست نہیں ہے تو پھر شام میں بشار الاسد کی حکومت کیلئے کیوں درست سمجھی جائے؟ لہذاجن حکومتوں نے دمشق حکومت کو گرانے کیلئے دہشت گردی کا سہارا لیا وہ غلطی پر تھے۔
مزید پڑھیں:ایران نے شام میں مداخلت کے الزام کو یکسر مسترد کردیا
شام کو جس طرح سےبے بس کرکےاسرائیل کے سامنے ڈالا گیا ہے وہ کسی بھی مسلمان کیلئے قابل قبول نہیں ہے، غیروں کی بات چھوڑیں ترکیہ اور بعض عرب ملکوں کا کردار انتہائی مذموم رہا ہے، مسلم ممالک اس بات پر کیوں روشنی نہیں ڈالتے کہ ایک عرب ملک کا 80 فیصد دفاعی ڈھانچہ اسرائیل نے برباد کردیا ہے، اسرائیل نے ہیئت تحریر الشام کی مسلح کارروائی کےدوبارہ آغاز کے بعد دمشق تک پہنچنے کے دوران شام کا فضائی دفاعی نظام مکمل طور پرتباہ کردیا تھا لیکن کوئی بولنے والا نہیں تھا، ہمیں بشار الاسد کی حکومت کو یہ کریڈیٹ دینا ہوگا کہ اُس نے شام کو اسرائیلی استکباریت کے سامنے سرنگوں نہیں کیا تھا مگر ترک صدر اُردوگان نے بشار الاسد سے ذاتی عناد کی بناء پرشام کو اسرائیلی کیلئے ترنوالہ بنادیا، دمشق پر باغیوں کے قبضے کے بعداسرائیل نے جولان کی پہاڑیوں اور شام کے درمیان بفرزون پر قبضہ کرکے اس حصّے کو بھی اپنی حدود میں شامل کرلیا ہے اور دروز فرقے کو تحفظ فراہم کرنے کو بنیاد بناکراسرائیل نے دمشق کے مضافات تک اپنی فوج پہنچادی ہے جبکہ بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے والے ابومحمد الجولانی بڑی ڈھٹائی کیساتھ کہتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے خلاف خطرہ بننے والی قوتوں کو شام سے بے دخل کرچکے ہیں اور اسرائیل کو وہ پڑوسی کا درجہ دے چکے ہیں، صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس سارے کھیل کے بعد شام کی جغرافیائی سالمیت خطرات سے دوچار ہے، ایک طرف اسرائیل ہے جو اس کے عرب علاقوں کو ہڑپنا چاہتا ہے تو دوسری طرف ترکیہ ہے جو کرد علاقوں پر اپنی حاکمیت مضبوط کررہا ہے جبکہ عرب لیگ ایک عرب ملک کا شیرازہ بکھرتے ہوئے صرف تماشہ دیکھ رہی ہے جو درد خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر ترکوں نے برداشت کیا تھا وہی درد ترک صدر اردوگان شامیوں کو پہنچا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:ایران کے نوجوان باکسر نے بڑا اعزاز اپنے نام کرلیا
دمشق کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اخبار ٹائمز کے ساتھ اپنے پہلے انٹرویو میں احمد الشارا(سابق ابو محمد الجولانی) نے کہا کہ اسرائیل شام پر حملے کے لئے حزب اللہ اور ایران سے وابستہ مسلح افراد کی موجودگی کو جواز بناتا تھا جو شامی سرزمین چھوڑ چکے ہیں لہذا اسرائیل کو ایک اچھے پڑوسی کا طرز عمل دکھاتے ہوئے شامی سرزمین سے اپنی فوج نکال لینی چاہیے، شامی فوج جس کے اعلیٰ عہدیداروں نے بھاری رشوت اور مغربی دنیا میں زندگی گزارنے کا پروانہ حاصل کرنے کے عوض اپنے ضمیروں کا سودا کرلیا اور الجولانی جیسے عاقبت نااندیش جنگجو دمشق پر مسلط ہوگئے، جنھوں نے اختیار ملتے ہی شامی فوج کو تحلیل کردیا جس کا اسرائیل کو فائدہ پہنچا اور شام کے 370 مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے پر اسرائیلی فوج قابض ہوگئی، شام کا شیرازہ بکھر چکا ہے عرب اور کرد تقسیم کے علاوہ مذہبی تقسیم گہری ہوتی جارہی ہے،اسرائیل نے 80 فیصد شامی دفاعی قوت تباہ کردی ہے اور الجولانی سابق شامی صدر بشار الاسدکی نشست پر بیٹھ کر یورپی یونین سے شام کے خلاف پابندیاں اُٹھانے کی درخواست کررہے ہیں، ایران کی جگہ ترکیہ نے سنبھال تو لی ہے مگر کیا وہ دمشق میں استحکام لانے کیلئے 50 ارب ڈالر خرچ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، امریکی فوج ابھی تک شام کے تیل پر قابض ہے اور کردوں کے ایک گروہ کے ذریعے شام میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھے ہوئے ہے، مغربی میڈیا صدر بشار الاسد کی حکومت کی مدد کیلئے ایران کے 50 ارب ڈالر کا حساب کتاب توکرتا ہے مگر امریکی ٹیکس دہندگان کے صرف ایک سال کے دوران اسرائیل پر خرچ ہونے والے 80 ارب ڈالر کیوں نظر نہیں آتے، اس رقم سے امریکہ میں بے گھر لوگوں کو رہائش کے علاوہ دیگر سہولیات میسر آسکتیں ہیں، امریکہ نےنائن الیون کے بعد افغانستان ، عراق اور شام میں جنگوں سمیت مختلف علاقائی تنازعات پر 8 ٹریلین ڈالر خرچ کیے ہیں، جو اسرائیل کی بقاء پر خرچ کی گئی رقم کے علاوہ ہے، اگر مان لیا جائے کہ ایران نے 2011ء سے 2020ء کے دوران شام کے دفاع کیلئے 50 ارب ڈالر خرچ کئے ہیں تو اس رقم کو 83 ملین ایرانی شہریوں میں تقسیم کیا جائے تو فی کس تقریباً 602 ڈالر بنتے ہیں جبکہ امریکی جنگوں پر خرچ ہونے والی رقم امریکی شہریوں پر تقسیم کی جائے تو فی کس تقریباً 27,000 ڈالر بنتی ہے جوکہ ایران کے مقابلے میں 54 فیصد زیادہ ہے، مغرب کا گودی میڈیا اس جانب بھی غور کیلئے وقت نکالے۔
نوٹ: جی ٹی وی نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔