مقبول خبریں
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو کو نو مئی سے متعلق مقدمات کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی جہاں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس نکتے پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں، کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے ہر فرد کو اس کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟ اس پہلو کوبھی مدنظر رکھیں کہ آرمی ایکٹ 1973 کے آئین سے پہلے بنا تھا۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پہلے بتائیں عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خامیاں ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کل بھی کہا تھا 9 مئی واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈر ہاؤس کا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اگر کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک ہی رکھنا ہے تو بھی آگاہ کردیں، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں جسے متفرق درخواست کی صورت میں جمع کرائیں گے۔
سماعت کے اختتام پر سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کیس میں آج کا آرڈر جاری کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے کیسز کے فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دی۔
عدالت نے رعایت کے مستحق افراد کو رہا کرنے کی ہدایت بھی کی جب کہ دوران سماعت جسٹس امین الدین نے کہا کہ جن ملزمان کا ٹرائل مکمل ہوچکا انہیں فوجداری عدالتوں میں منتقل کیا جائے۔
آئینی بینچ کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتواء مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے، کیسز میں سزا پانے والے افراد فوجداری عدالتوں میں اپیل کا حق رکھتے ہیں۔
عدالت نے فوجی عدالتوں کیس کی سماعت موسم سرما چھٹیوں تک ملتوی کردی جب کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستیں بھی جنوری کے دوسرے ہفتے میں مقرر کرنے کا عندیہ دیا۔