مقبول خبریں
شام میں ترکیہ کا آپریشن، اسرائیل مقاصد حاصل نہیں کرسکے گا؟
یکم اکتوبر 2024ء کو اسرائیل نے لبنان پر کثیر الجہتی حملہ اُس وقت کیا جب اگست 2024ء میں تل ابیب نے لبنان میں وسیع پیمانے پر دہشت گردی کیلئے الیکٹرونکس ڈیوائزس کا استعمال کیا تھا۔
لبنان کے دفاع کی ضامن تنظیم حزب اللہ کے قائد سید حسن نصر اللہ کو 22 ستمبر 2014ء کی رات امریکہ کے فراہم کردہ خطرناک بموں کے لگاتار حملوں کے ذریعے نشانہ بناکر شہید کیا گیا، یکم اکتوبر 2024ء سے 27 نومبر 2024ء جنگ بندی تک اسرائیل جنوبی لبنان میں اپنی زمینی فورسز کے ذریعے کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کرسکا ماسوائے چند ہتھیاروں کو قبضے میں لیا اور حزب اللہ کے بعض سرحدی مورچوں کو تباہ کیا۔
جواب میں حزب اللہ کے مجاہدین نے زبردست مقابلہ کیا اور اسرائیل کی زمینی فوج کو نہ صرف جنوبی لبنان اور بیروت پر قابض ہونے سے روکا بلکہ صیہونی فوج کو زبردست جانی نقصان پہنچایا، اس کے مرکاوا ٹینکوں جن کی محتاط تعداد 84 ہے تباہ کردیئے البتہ محاذ جنگ کا دورہ کرنے والے متعدد صحافیوں نے بتایا ہے کہ اسرائیل کے جدید ترین ٹینکوں کی تباہی بہت زیادہ ہوئی۔
اعداد و شمار سے یہ بات سامنے آئی ہے اسرائیل کے کم و بیش 247 مرکاوا ٹینکوں تباہ ہوئے یا انہیں نقصان پہنچا، یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ حزب اللہ نے جنگی محاذ کے علاوہ اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں بھی اِن ٹینکوں کو نقصان پہنچایا، یہ بات حزب اللہ کی اینٹی ٹینک حکمت عملی اور جدید ہتھیاروں کی کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے، جنہوں نے اسرائیل کے مشہور ٹینکوں کے دفاعی نظام کو چیلنج کیا۔
حزب اللہ نے روسی ساختہ کورنیٹ اور دیگر جدید اینٹی ٹینک میزائل استعمال کیے، جنہوں نے مرکاوا ٹینک کی حفاظت کو بھی ناکام بنا دیا۔
اسرائیل کو 58 روزہ رسمی جنگ میں جو نقصان پہنچا اُس کا بدلہ شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف دہشت گردوں کو استعمال کرکے لیا جا رہا ہے، یہاں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ اسرائیل اور ترکیہ کی اس سازش اور دہشت گردوں کی خفیہ بنیادوں پر تیاری، یوکرین سے اسلحہ کی ترسیل اور کم و بیش تین ملکوں، ازبکستان، ترکمانستان اور جنوبی ایشیائی ملک سے دہشت گردوں کا ترکیہ آنا اور سرحدی قصبوں میں اجتماع کرنےکو تین ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیاں قبل از وقتبے نقاب نہیں کرسکیں۔
اِن تین ملکوں میں روس، ایران اور شام شامل ہے، اس سلسلے میں روس اور شام کی ذمہ داری ایران کے مقابلے میں زیادہ بنتی ہے، اس انٹیلی جنس ناکامی کو تسلیم کرکے تینوں ملک آئندہ شامی سالمیت پر حملوں کی روک تھام کیلئے صرف انٹیلی جنس تعاون پر انحصار نہ کریں بلکہ مشترکہ انٹیلی جنس نظام تشکیل دیں کیونکہ اس خطے میں اسرائیل، امریکہ، فرانس اور برطانوی انٹیلی جنس مشترکہ انٹیلی جنس یکجہتی کیساتھ کام کررہی ہیں۔
شام پر دہشت گردوں کے حالیہ حملوں سے ترکیہ کا مذموم کردار نمایاں ہوکر سامنے آیا ہے حالانکہ ترک عوام اردوگان کے اس اقدام کی کھل کر مخالفت کررہے ہیں، ترک صدر نے غزہ میں حماس کو عسکری مدد دینے سے انکار کردیا تھا اور لبنان پر اسرائیلی جارحیت کے دوران ہی ان کے تیور سے معلوم وہ حزب اللہ کے مقابلے میں اسرائیل کو سپورٹ کررہے ہیں۔
ترکیہ کی انٹیلی جنس نے لبنان میں سنی عربوں اور مارونی عیسائیوں کے کئی گروہوں کو اپنا ہم خیال بنانا شروع کردیا تھا جو یہ موقف رکھتے تھے کہ لبنان پر جو افتاد آن پڑی ہے اس کی وجہ حزب اللہ ہے، جس نے حماس اور اسرائیل کی جنگ میں شامل ہوکر لبنان کو خطرات سے دوچار کردیا۔
حزب اللہ اگر اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی علاقوں سے یہودی آبادکاروں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور نہ کرتی اور اُن کو دوبارہ بسنے کیلئے حملے بند کردیتی تو لبنان پر اسرائیل یکم اکتوبر کو زمینی حملہ نہ کرتا۔
حزب اللہ اور اسرائیل کی اس 58 روزہ جنگ کے دوران غداروں کی نقاب کشائی بھی ہوئی ہے اور اس میں ترک رہنما بھی شامل ہیں اور روایت کے برخلاف سعودی عرب اور مصر نے بڑی حد تک اسرائیل کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کی جنگ کے دوران مثبت کردار ادا کیا۔
سعودی عرب کا فلسطینیوں کی ریاست کے قیام کو اسرائیل سے بات چیت شروع کرنے سے مشروط کرکے امریکہ اور اسرائیل کے سامنے بڑی ہمت کامظاہرہ کیا ہے، ویسے اب حالات بدل رہے ہیں دنیا میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے، دنیا پر امریکی ظالمانہ اجارہ داری ختم کرنے کیلئے عسکری کوششوں کیساتھ معاشی محاذ پر بیک وقت کام چل رہا ہے اور اس وقت امریکہ کا برکس کرنسی کو بنیاد بناکر بلبلانہ واضح کررہا ہے کہ سامراجی نظام کی دیوار گرنے والی ہے۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس، چین، برزایل اور جنوبی افریقہ سمیت نو ممالک کو دھمکی دی ہے کہ اگر انھوں نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں لین دین کے لیے کسی نئی کرنسی کا انتخاب کیا تو ان پر 100 فیصد تک ٹیرف عائد کر دیا جائے گا۔
شام میں دہشت گردوں کے خلاف شام، روس اور ایران کا مشترکہ آپریشن حلب کے علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کررہا ہے، تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ابتک 1600 سے زائد اسرائیل ترک امریکہ پشت پناہ دہشت گرد ہلاک کردیئے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق فوج نے نام نہاد حیات تحریر الشام سے تعلق رکھنے والے تکفیری دہشت گردوں کے ساتھ جھڑپوں کے بعد حما کے شمال مشرق میں واقع قصبے توبہ پر بھی اپنا کنٹرول حاصل کرلیا ہے، اسرائیل نے لبنان حزب اللہ جنگ کے دوران شام کے صدر بشار الاسد پر دباؤ اور لالچ کے ذریعے وہ ہائی وے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا جو شام سے لبنان کی سرحد میں داخل ہوتی ہے اور اسی شاہراہ کے ذریعے حزب اللہ کو پہنچنے والے ہتھیاروں نے اسرائیل کو نکیل ڈالی۔
اسرائیل اور امریکہ تو سمجھ رہے تھے کہ حزب اللہ کو وہ ختم کردیں گے، شامی صدر بشار الاسد نے تمام تر دباؤ اور لالچ کے باوجود اس شاہراہ کو بند نہیں کیا حالانکہ اسرائیلی بمباری نے شاہراہ کو نقصان ضرور پہنچایا، حزب اللہ کو ہتھیاروں کی ترسیل جاری رہنے دی جس کی وجہ سے حزب اللہ کی مزاحمت جاری رہی اور اسرائیل کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
دمشق میں سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے ایک سے زائد مرتبہ صدر بشار الاسد کو اس شاہراہ کو بند کرنے کے بدلے اُن کی حکومت کیساتھ تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی مگر شامی صدر کی استقامت اور حب الوطنی نے اسرائیل کی خواہش پوری نہیں کی یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور اس کا مربی امریکہ صدر بشار الاسد کو اپنے مذموم عزائم کی راہ کی دیوار سمجھ کر دہشت گردوں کے ذریعے دمشق حکومت کو سبق سکھانا چاہتا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کو معلوم ہے کہ دمشق حکومت مضبوط حصّار میں ہے، وہ چند ہزار دہشت گردوں کے ذریعے گرائی نہیں جا سکتی۔
نوٹ: جی ٹی وی نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔