مقبول خبریں
اپوزیشن جنگجوؤں کا شہر پر قبضہ، فوج انخلا پر مجبور
شامی صدر بشارالاسد کے مخالفین نے حلب شہر پر تقریباً 10 سال بعد قبضہ کرلیا جب کہ شدید جھڑپوں میں 240 سے زائد ہلاکتوں کے بعد فوج وہاں سے انخلا کرنے پر مجبور ہوگئی۔
خبر ایجنسی رائٹرز کے مطابق شامی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ اپوزیشن دھڑوں کے حملے کے دوران درجنوں فوجی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ صدر کے مخالفین حلب شہر کے بڑے حصے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے جس کی وجہ سے فوج وہاں سے عارضی طور پر پیچھے ہٹ گئی۔
شامی فوج کا یہ بیان پہلا عوامی اعتراف ہے کہ ترک حمایت یافتہ حیات تحریر الشام کی قیادت میں باغی حکومت کے زیر قبضہ شہر حلب میں داخل ہوگئے۔
باغیوں کا یہ حملہ صدر بشار الاسد کے لیے گزشتہ برسوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے، جس نے 2020 کے بعد سے بڑے پیمانے پر منجمد شامی خانہ جنگی کے محاذوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
شامی فوج کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فوج کی جانب سے باغیوں کے ٹھکانوں پر مسلسل بمباری کی وجہ سے جنگجو حلب شہر میں متعین پوزیشنیں قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
رپورٹس کے مطابق شامی فوج کا کہنا تھا کہ ہمارا یہ انخلا عارضی ہے، باغیوں کے خلاف پوری قوت سے کارروائی کرکے حلب شہر کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا جائے گا۔
حیات تحریر الشام کے جنگجو تقریباً ایک دہائی بعد پہلی بار شہر میں واپس آئے ہیں، 2016 میں بشار الاسد اور اس کے اتحادیوں بشمول روس، ایران اور علاقائی شیعہ ملیشیا نے انہیں بے دخل کردیا تھا، جنگجوؤں نے بدھ کو اپنی دراندازی کا آغاز کیا اور جمعہ کی رات تک جارحانہ کارروائیوں کیں۔
قبل ازیں شامی فوج کے دو ذرائع نے بتایا تھا کہ روسی اور شامی جنگی طیاروں نے حلب کے مضافاتی علاقے میں ترک حمایت باغیوں کو نشانہ بنایا۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا تھا کہ ماسکو عسکریت پسندوں کے اس حملے کو شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔