مقبول خبریں
عالمی عدالت کا فیصلہ اسرائیل کو اسلحہ فراہمی میں رکاوٹ بن سکتی ہے؟
یورپی یونین کے خارجہ اُمور کے سربراہ جوزپ بوریل نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کیلئے کوئی چوائس نہیں ہے کہ وہ عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرے۔
یونین میں شامل ممالک اور اس میں شامل ہونے کے خواہشمند ممالک پابند ہیں کہ وہ اپنی سرحدی حدود میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گلنٹ اور حماس کے رہنما محمد دیف کو داخل ہوتے ہی گرفتار کریں۔
جوزپ بوریل نے کہا کہ یہ اختیاری معاملہ نہیں ہے اس طرح کی ذمہ داریاں یورپی یونین میں شامل ہونے کے خواہشمند ممالک پر بھی عائد ہوتی ہیں، چوزپ کو یہ بیان دینے کی ضرورت اُس وقت پیش آئی جب ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے نیتن یاہو کو اپنے ملک کے دورے کی دعوت دی اور یقین دہانی کرائی کہ اگر وہ آتے ہیں تو انہیں کسی قسم کے خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
اُنہوں نے کہا کہ یہ بہت مضحکہ خیز ہوگا کہ نئے آنے والے ممالک کیلئے ایک ذمہ داری ہے جسے پہلے سے موجود ممبران پوری نہیں کرتے، یورپی یونین کے بیشتر ملکوں بشمول کینیڈا اور آسٹریلیا نے عالمی فوجداری عدالت کے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کرنے کا اعلان کیا ہے، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے سے اُن کا بیرون ملک آزادنہ گھومنا پھرنا تو ممکن نہیں رہا لیکن ملک کے اندر بھی وہ محفوظ نہیں ہیں ، اُن کی گرفتاری اب ایک عالمی ضرورت بن چکی ہے اس صورتحال میں اسرائیل اپنے وزیراعظم اور سابق وزیردفاع کو عالمی فوجداری عدالت کے سپرد نہیں کرتا ہے تو اس سے دوسرے معاملات بھی پیچیدہ ہوسکتے ہیں، عالمی سطح پر سیاسی اور فوجی مبصرین سوال اُٹھا رہے ہیں کہ کیا اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنے والی مغربی اقوام اپنے تجارتی معاہدوں کا از سر نو جائزہ لینے پر مجبور ہو سکتے ہیں!، عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے اسرائیلی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری ایسے وقت میں جاری ہوئے ہیں جب اسرائیل غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نسل کشی، مسلسل بمباری اور فوجی مہم جاری رکھے ہوئے ہے، جہاں صحت کے حکام کے مطابق سات اکتوبر 2023 سے اب تک 44,000 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، تمام 124 ممالک جو آئی سی سی کے روم معاہدے پر دستخط کرکے اسکی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہیں، اب قانونی طور پر پابند ہیں کہ جنگی جرائم میں ملوث نیتن یاہو اور گیلنٹ کو اپنے اپنے ملکوں میں داخل ہونے پر گرفتار کریں۔
سوال بجا ہے کہ آیا کسی ایسے ملک کو جس کا وزیراعظم انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہو اُسے اسلحہ فراہم کیا جاسکتا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کچھ سپلائرز غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی حمایت میں تل ابیب کو اسلحہ فراہمی جاری رکھناچاہتے ہیں تو انہیں احتیاط کرنا ہوگی، اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اندازہ لگایا ہے کہ 2019 اور 2023 درمیان اسرائیل عالمی سطح پر ہتھیاروں کا 15 واں سب سے بڑا درآمد کنندہ تھا،امریکہ،جرمنی، برطانیہ، فرانس اور اسپین اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرتے ہیں، اقوام متحدہ کی 23 فروری 2024 کو شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کینیڈا اور آسٹریلیا نے بھی اسرائیل کو ہتھیار برآمد کیے ہیں۔
اسرائیل نے 2019 اور 2023 کے درمیان اپنے ہتھیاروں کا 69 فیصد امریکہ سے درآمد کیا، سپری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی قانون سازوں نے اسرائیل کی خطے میں فوجی بالادستی قائم رکھنے کیلئے 2008ء میں قانون منظور کیا جس کے تحت امریکہ تل ابیب کو وافر مقدار میں اسلحہ دینے کا پابند ہے، 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ کی پٹی پر حملے کا آغاز کیا تو امریکہ نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی منتقلی کو مزید تیز کر دیا گزشتہ ماہ، واشنگٹن نے اعلان کیا کہ وہ اپنا جدید ترین ٹرمینل ہائی الٹی ٹیوڈ ایریا ڈیفنس میزائل دفاعی نظام (تھاڈ)اسرائیل بھیجا ہے، اس کیساتھ امریکی فوجی بھی پہنچیں ہیں جواس نظام کو چلائیں گے،ابتک امریکہ نے آئی سی سی کے روم معاہدے پر دستخط نہیں کئےہیں ، اسی لئے امریکہ نے اسرائیل کو ہتھیار فراہمی کم کرنے یا روکنے کے لئے کوئی اعلان نہیں کیا جس سے واضح ہے کہ امریکا جنگی جرائم میں ملوث ریاست اسرائیل کو اسلحہ فراہمی جاری رکھے گا، وائٹ ہاؤس کی ترجمان کرائن جین پیئر نے صحافیوں کو بتایا کہ ہم عدالت کے سینئر اسرائیلی حکام کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے فیصلے کو بنیادی طور پر مسترد کرتے ہیں، امریکہ میں دونوں جماعتوں کے بہت سے سیاست دانوں نے اس جذبات کا اظہار کررہے ہیں۔
سپری کے مطابق اسرائیل اپنے ہتھیاروں کی 30 فیصد ضرورت جرمنی سے پورا کرتا ہے ، جو 2022 کے مقابلے میں 2023 میں دس گنا زیادہ ہے، نکاراگوا نے بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں ایک مقدمہ دائر کیا، جس میں عدالت سے کہا گیا کہ وہ جرمنی کو فوری طور پر اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد روکنے کا حکم دے کیونکہ یہ امداد نسل کشی کی سنگین خلاف ورزیوں کے ارتکاب یا سہولت کاری کے لئے استعمال کی جاتی ہے ،تاہم عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جن ہتھیاروں کے لئے جرمنی نے برآمدی لائسنس دیئے ہیں ،ستمبر میں جرمن وزارت اقتصادی امور کے ترجمان نے کہااسرائیل کے خلاف جرمن ہتھیاروں کی برآمد کا کوئی بائیکاٹ نہیں ہے، دسمبر 2023 سے برطانیہ کی مسلح افواج کے وزیر مملکت لیو ڈوچرٹی نے اپریل 2024 میں پارلیمنٹ کو جون 2024ء تک اسرائیل کو اسلحہ کے برآمدی اجازت ناموں کے سرکاری اعداد و شمار سے آگاہ کیا، اُس نے بتایا کہ 7 اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک اسرائیل کو 108 لائسنس جاری کئے ہیں، اس سال ستمبر میں برطانیہ نے کل 350 میں سے 30 لائسنس معطل کر دیئے ہیں، یہ 30 لائسنس ایسے ہتھیاروں سے متعلق تھے جن کے بارے میں برطانیہ کا خیال تھا کہ غزہ میں فوجی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے، جون میں انکشاف ہوا کہ فرانس نے غزہ میں شہریوں پر بمباری کے لئے استعمال ہونے والے ڈرونز کے لئے الیکٹرانک آلات بھیجے تھے، اکتوبر میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے مزید کہا کہ فرانس غزہ جنگ بندی کیلئے اسرائیل کو ہتھیار فراہم نہیں کرے گا۔
جنگی جرائم میں ملوث غاصب ریاست اسرائیل کے خلاف عالمی فوجداری عدالت کے حکم پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے مغربی دنیا کو زیادہ اہم کردار ادا کرنا ہوگا، امریکہ کی جانب یہ سوچنا کہ وائٹ ہاؤس میں بیٹھا کوئی بھی صدر اسرائیل کے خلاف تادیبی اقدام کرئے گا فضول ہے تو پھر کیا کرنا چاہیئے، اسی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی موجودگی میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی لگانا ممکن نہیں ہے تو پھر کیا راستہ رہ جاتا ہے کہ عالمی فوجداری عدالت کے حکم پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے، یورپی ملکوں بھارت، ترکی اور کینیڈا پر دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ اسرائیل سے ہر قسم کے رشتے توڑ دیں، جن میں اسلحہ کی فراہمی بھی شامل ہو اور ہر ممکن کوشش کی جائے کہ اسرائیل کو ہتھیار نہ پہنچیں، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وہ ممالک ہیں جو امریکہ سے ہتھیار خریدنے والے اہم ملکوں میں شامل ہیں لہذا امریکہ پر اسرائیل کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کیلئے یہی ممالک دباؤ ڈال سکتے ہیں دونوں ممالک واشنگٹن کیساتھ ہتھیاروں کی تمام ڈیلز کو اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی سے مشروط کردیں۔
نوٹ: جی ٹی وی نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔