مقبول خبریں
کراچی میں کچرا پھیلانے پر 3 سال قید اور کچرا نہ اُٹھانے والے کو میئر بنایا جاتا ہے
پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی اور ٹیکس جمع کرنے والا شہر کم وبیش گزشتہ دو دہائیوں سے پیپلزپارٹی کے تعصب کا شکار ہوکر کچرے سے بھرے شہروں میں نمبر ون پر ہے۔
اس شہر بے کساں کے محترم میئر جو بلحاظ عہدہ بابائے شہر بھی کہا جاتا ہے نے کچرا اُٹھانے کے بجائے کچرا پھیلانے والوں کو 3 سال تک پس دیوار زندہ رکھنے کی نوید سنائی ہے، سندھ میں پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت مسلسل چوتھی بار برسراقتدار آئی ہے، لوگ بھی نہیں بدلے بس ایک سید وزیراعلیٰ کو تبدیل کرکے دوسرے سید کو اُن کا جانشین بنادیا ہے، خیرپور کے سید گھرانے کی بزرگ ترین شخصیت کو بھی دل پر جبر کرکے ہٹایا گیا کیونکہ انہیں بھولنے کی بیماری لاحق ہوگئی تھی جس کا فائدہ بلاول ہاؤس کے مقتدر افراد فائدہ اٹھا رہے تھے اور وزیراعلیٰ قائم علی شاہ فائیلوں پر دستخط کرکے بھول جایا کرتے تھے، سکیریٹری صاحبان فائیلیں لئے وزیراعلیٰ ہاؤس پہنچتے تھے اور انہیں بتاتے تھے کہ آپ نے جس فائل پر دستخط کئے ہیں اس کیلئے قانونی تقاضے پورے نہیں ہوئے ہیں تو سید صاحب دستخط دیکھتے اور کہتے دستخط تو میرے ہیں مگر معلوم نہیں یہ دستخط یہاں کیسے ہوگئے اور پھر مسکراتے ہوئے کہتے تھے جب دستخط موجود ہیں اور فائل بلاول ہاؤس سے آئی ہے تو کام تو کرنا ہوگا اور پھر وہ فائل عرصے تک اُن کی میز پر پڑی رہتی اور کام آگے نہیں چلتا، اربوں اور کروڑوں کی فائلیں جب دبنا شروع ہوگئیں تو خیرپور کے وزیراعلیٰ سے پیچھا چھڑا کر دادو کے مراد شاہ کو سندھ کی وزارت اعلیٰ کا منصب پر بیٹھا دیا، اُس وقت سے ابتک تقریباً ایک دہائی سے وہی وزیراعلیٰ ہیں جنھیں بھری جوانی میں بلاول ہاؤس کے مکینوں نے بھرتی کیا اور اب وہ برزگ وزیراعلیٰ کی صف میں کھڑے ہیں، بلاول ہاؤس اور مقتدر لوگ وزیراعلیٰ بدلنے کی بات کررہے ہیں اس صف میں شرجیل میمن کا نام بھی شامل ہے، شرجیل میمن میں کھانے اور کھلانے کی وہ خصوصیت ہے جو سب کو سپند آتی ہے، بات کراچی کے کچرا پھیلانے پر سزا دیئے جانے سے شروع ہوئی تھی، کراچی کے مئیر مرتصیٰ وہاب نے شہر میں کچرا پھیلانے والوں کیخلاف سخت انتظامات کا عندیہ دے دیا، مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ کچرا پھیلانے والوں کو 3 سال قید اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جماعت اسلامی مرتصیٰ وہاب کو غاصب میئر کہتے ہیں، جس طرح اسرائیل کو غاصب ریاست کہا جاتا ہے، جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ اُس سے میئر کراچی کی نشست چھین کر پیپلزپارٹی کے حوالے کی گئی ہے۔
کراچی جو علم و ادب کا گہوارہ تھا بقول انیق احمد جب ہندوستان اُجڑا تو کواچی آباد ہوا، اس شہر پر مرثیہ ہی لکھا جاسکتا ہے مادر ملت تک پاکستان کا یہ شہر ہی سیاست کی بساط بیچھایا کرتا تھا مگر اب اس شہرِ علم و فن کی سیاست کچرا، گندگی اور بند نالے ہوکر رہ گئی ہے، پاکستان کی سپریم کورٹ نے کسی کے اشارے پر کراچی بدامنی کیس کی سماعت شروع کی تو اس کی سماجی سرگرمیوں کو بھی زیر بحث لایا گیا، کوڑا کرکٹ سے بھرے شہر میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس داخل ہوئے تو انہیں یہی سمجھ آیا کہ کراچی میں بدامنی کی ایک وجہ یہی کوڑا کرکٹ ہے، سپریم کورٹ نے پورا زور لگالیا مگر کراچی کا کچرا نہیں اُٹھایا جاسکا مگر سپریم کورٹ کی یہ خواہش ایک آرزو ہی بنی رہی پھر چیف جسٹس تبدیل ہوئے اُن کا تعلق کراچی سے تھا اُن کا خاندان دہلی سے ہجرت کرکے پاکستان آیا تھا، اُنھوں نے بہت کوشش کی کہ کراچی کا حال درست ہوسکے مگر اُن کی سوئی بھی ایک عمارت کو ڈھائے جانے پر اٹک گئی، البتہ انھوں نے بڑی جرات کیساتھ یہ ریمارکس دیا کہ دنیا کی کون سی فوج ہے جو بزنس کرتی ہے، پاکستان کی فوج کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ بزنس ہی نہیں کرتی بلکہ ایمانداری سے ٹیکس بھی ادا کرتی ہے، کراچی کی تمام شاہراہیں جس بدحالی کا ماتم کررہی ہیں وہ پیپلزپارٹی کے سنہری دور کا ایک معمولی نمونہ ہے، جس کی داد و تحسین بلاول بھٹو وصول کرنا چاہتے ہیں اور جب چمچوں کے نرغے سے باہر آتے ہیں اور انہیں داد تحسین کے بجائے داد و فریاد سنی پڑتی ہے تو وہ خود بعض منصوبوں کو گنوانا شروع کردیتے ہیں جسکا افتتاع اُن کے والد نے کیا ہوتا ہے یا خود افتتاع کرچکے ہوتے ہیں مگر انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ یہ ترقیاتی منصوبے اب کس حال میں ہیں، یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا پر فعال نوجوانوں کا جن کیوجہ سے سیاسی حکومتوں اور ریاستی اداروں کو بینقاب ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے، دنیا نے اس ذریعے سے اصلاحِ احوال کی جانب بڑھی ہے لیکن پاکستان میں اس ذریعے سے فائدہ اُتھانے کے بجائے سوشل میڈیا کو شیطانی آلہ قرار دیکر بند کرنے کیلئے ریاستی اداروں اور حکمرانوں کی جانب سے مذموم کوششیں ہوتی رہتی ہیں، برسبیل تذکرہ بتاتا جاؤں کہ سوشل میڈیا ایپ ایکس کم و بیش چھ ماہ سے بند ہیں اور پاکستانیوں کی اکثریت مفت وی پی این سے ایکس تک رسائی حاصل کرتے ہیں لیکن اب ایک مولوی صاحب کا فتویٰ آگیا ہے کہ وی پی این استعمال کرنا حرام ہے اور یہ فتویٰ بھی وی پی این استعمال کرکے ایکس پر جاری کیا گیا۔
کراچی کا ماتم کرنے والے کتنے لوگ خاک کے سپرد ہوچکے ہیں لیکن کراچی نہیں بدلا، کراچی سونے کا انڈا دینے والی وہ مرغی ہے جس کا انڈہ طاقتور لے جاتے ہیں اور کراچی والے بس اپنی بے بسی پر ماتم کرتے رہ جاتے ہیں، کراچی صرف ٹیکس دینا والا سب سے بڑا شہر ہی نہیں بلکہ یہاں کے صنعتکاروں کو اغواء کرکے طاقتور افراد بھٹہ وصول کرتے ہیں مگر شاباش ہو ساکنان شہر پر وہ اف بھی نہیں کرتے، عمران خان نے پورے ملک کے نوجوانوں کو بیدار کردیا ہے مگر کراچی کا نوجوان تو اپنے حق سے دستبرار ہوکر اپنی صلاحتوں کو دیار غیر میں آزما رہا ہے، دیکھتے ہیں کب تک سونے کا انڈا دینے والی مرغی زندہ رہتی ہے۔
نوٹ: جی ٹی وی نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔